اللہ تعالیٰ کا فرمانا کہ جن عورتوں کے شوہر مر جائیں ان کو چاہئے کہ چار ماہ دس دن کی عدت پوری کریں اور جب عدت پوری ہو جائے آخر تک یعفون کے معنی ہیں کہ معاف کر دیں ۔
راوی: اسحاق , روح , شبل , ابن ابی نجیح , مجاہد
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ حَدَّثَنَا رَوْحٌ حَدَّثَنَا شِبْلٌ عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ عَنْ مُجَاهِدٍ وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا قَالَ کَانَتْ هَذِهِ الْعِدَّةُ تَعْتَدُّ عِنْدَ أَهْلِ زَوْجِهَا وَاجِبٌ فَأَنْزَلَ اللَّهُ وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لِأَزْوَاجِهِمْ مَتَاعًا إِلَی الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْکُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ مِنْ مَعْرُوفٍ قَالَ جَعَلَ اللَّهُ لَهَا تَمَامَ السَّنَةِ سَبْعَةَ أَشْهُرٍ وَعِشْرِينَ لَيْلَةً وَصِيَّةً إِنْ شَائَتْ سَکَنَتْ فِي وَصِيَّتِهَا وَإِنْ شَائَتْ خَرَجَتْ وَهْوَ قَوْلُ اللَّهِ تَعَالَی غَيْرَ إِخْرَاجٍ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْکُمْ فَالْعِدَّةُ کَمَا هِيَ وَاجِبٌ عَلَيْهَا زَعَمَ ذَلِکَ عَنْ مُجَاهِدٍ وَقَالَ عَطَائٌ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ نَسَخَتْ هَذِهِ الْآيَةُ عِدَّتَهَا عِنْدَ أَهْلِهَا فَتَعْتَدُّ حَيْثُ شَائَتْ وَهْوَ قَوْلُ اللَّهِ تَعَالَی غَيْرَ إِخْرَاجٍ قَالَ عَطَائٌ إِنْ شَائَتْ اعْتَدَّتْ عِنْدَ أَهْلِهِ وَسَکَنَتْ فِي وَصِيَّتِهَا وَإِنْ شَائَتْ خَرَجَتْ لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَی فَلَا جُنَاحَ عَلَيْکُمْ فِيمَا فَعَلْنَ قَالَ عَطَائٌ ثُمَّ جَائَ الْمِيرَاثُ فَنَسَخَ السُّکْنَی فَتَعْتَدُّ حَيْثُ شَائَتْ وَلَا سُکْنَی لَهَا وَعَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ حَدَّثَنَا وَرْقَائُ عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ عَنْ مُجَاهِدٍ بِهَذَا وَعَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ عَنْ عَطَائٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ نَسَخَتْ هَذِهِ الْآيَةُ عِدَّتَهَا فِي أَهْلِهَا فَتَعْتَدُّ حَيْثُ شَائَتْ لِقَوْلِ اللَّهِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ نَحْوَهُ
اسحاق، روح، شبل، ابن ابی نجیح، مجاہد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آیت وَالَّذِيْنَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا ښ وَّصِيَّةً لِّاَزْوَاجِهِمْ مَّتَاعًا اِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ اِخْرَاجٍ 2۔ البقرۃ : 240) سے پہلے یعنی زمانہ جاہلیت میں ایک سال کی عدت عورت کو اپنے گھر پوری کرناضروری سمجھتے تھے، اس وقت یہ آیت نازل ہوئی کہ غیر اخراج فَاِنْ خَرَجْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ 2۔ البقرۃ : 240) الخ یعنی اگر یہ عورتیں چار ماہ دس دن کے بعد اپنے خاوند کے گھروں سے نکل جائیں تو خاوند کے وارثوں پر کوئی گناہ نہیں اس آیت میں ایک سال پورا کرنے کے لئے سات ماہ اور بیس دن زیادہ خاوند کے گھر میں رکنا وصیت پر منحصر رکھا گیا ہے مگر عورت کو اختیار ہے چاہے تو شوہر کی وصیت کے مطابق شوہر کے گھر میں ایک سال پورا کرے اور چاہے تو عدت پوری کرکے چلی جائے، ابن عباس کا کہنا ہے کہ اس آیت سے ایام عدت عورت کو اپنے شوہر کے گھر میں رہ کر پورا کرنے کا جو حکم تھا منسوخ ہوگیا ہے وہ چاہے تو کہیں اور بھی عدت کو پورا کرسکتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے اس قول غیر اخراج کا یہی مطلب ہے، عطاء کہتے ہیں کہ اگر عورت چاہے تو اپنے خاوند کے گھر والوں میں عدت پوری کرے اور خاوند کی وصیت کے مطابق اسی کے گھر میں رہے اور اگر نکل جائے اور دستور کے موافق کوئی کام کرے تو تم پر کوئی گناہ نہیں ہے عطاء کہتے ہیں اس کے بعد میراث کی آیت نازل ہوئی اور عورت کو حکم ملا کہ جہاں چاہے اپنی عدت پوری کرے اب نان ونفقہ ان کے ذمہ نہیں رہا اس حدیث کو محمد بن یوسف، ورقاء بن عمر، ابن ابی نجیح، مجاہد سیاور ابن ابی نجیح، عطاء بن ابی رباح، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ اس آیت سے عورت کا اپنے شوہر کے گھر میں عدت پوری کرنے کا حکم منسوخ ہوگیا ہے اور اس کو اختیار مل گیا ہے کہ جہاں چاہے عدت گذارے شوہر کے وارث وراثت دے کر اسے علیحدہ کرسکتے تھے۔
Narrated Mujahi:
(regarding the Verse):– "Those of you who die and leave wives behind. They – (their wives) — shall wait (as regards their marriage ) for four months and ten days)." (2.234)
The widow, according to this Verse, was to spend this period of waiting with her husband's family, so Allah revealed: "Those of you who die and leave wives (i.e. widows) should bequeath for their wives, a year's maintenance and residences without turning them out, but if they leave (their residence), there is no blame on you for what they do with themselves provided it is honorable.' (i.e. lawful marriage) (2.240).
So Allah entitled the widow to be bequeathed extra maintenance for seven months and twenty nights, and that is the completion of one year. If she wished she could stay (in her husband's home) according to the will, and she could leave it if she wished, as Allah says:
"..without turning them out, but if they leave (the residence), there is no blame on you." So the 'Idda (i.e. four months and ten days as it) is obligatory for her.
'Ata said: Ibn 'Abbas said, "This Verse, i.e. the Statement of Allah: "..without turning them out.." cancelled the obligation of staying for the waiting period in her dead husband's house, and she can complete this period wherever she likes." 'Ata's aid: If she wished, she could complete her 'Idda by staying in her dead husband's residence according to the will or leave it according to Allah's Statement:–
"There is no blame on you for what they do with themselves." 'Ata' added: Later the regulations of inheritance came and abrogated the order of the dwelling of the widow (in her dead husband's house), so she could complete the 'Idda wherever she likes. And it was no longer necessary to provide her with a residence. Ibn 'Abbas said, "This Verse abrogated her (i.e. widow's) dwelling in her dead husband's house and she could complete the 'Idda (i.e. four months and ten days) wherever she liked, as Allah's Statement says:–"…without turning them out…"