آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک منکسرانہ نشست
راوی:
وعن قيلة بنت مخرمة أنها رأت رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسجد وهو قاعد القرفصاء . قالت فلما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم المتخشع أرعدت من الفرق . رواه أبو داود .
" اور حضرت قیلہ بنت مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں بہ ہیبت قرفضا بیٹھے ہوئے دیکھا قیلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ جب میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح انتہائی فروتنی وانکساری ، خشوع و خضوع اور استغراق و حضوری کے عالم میں بیٹھے ہوئے دیکھا تو میں مارے ہیبت کے کانپ گئی۔ (ابوداؤد)
تشریح
قرفصاء قاف کے پیش ، راء کے جزم اور فاء کے پیش اور زبر کے ساتھ کے معنی ہیں اکڑوں بیٹھنا اور ہاتھوں کو ٹانگوں کے گرد باندھنا چنانچہ اس نشست یعنی قرفصاء کی صورت یہ ہوتی ہے دونوں تانوؤں کو کھڑا کے سرینوں (کولھوں) پر بیٹھ جاتے ہیں زانوؤں کو پیٹ سے لگا لیتے ہیں اور دونوں ہاتھوں کو پنڈلیوں پا باندھ لیتے ہیں۔قرفضاء کی ایک دوسری صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ دونوں زانووں کو زمین پر ٹیک کر رانوں کو پیٹ سے لگا لیتے ہیں اور ہاتھوں کی ہتھیلیاں دونوں بغلوں میں داب لی جاتی ہیں اس طرح کہ دائیں ہتھیلی بائیں بغل میں اور بائیں ہتھیلی دائیں بغل میں رہتی ہیں بیٹھنے کا یہ خاص طریقہ عام طور پر عرب کے ان غیر متمدن لوگوں میں رائج تھا جو جنگلات میں بود وباش رکھتے تھے نیز وہ مسکین غریب لوگ بھی اس طرح بیٹھتے ہیں جو تفکرات و خیالات اور غم و آلام میں مبتلا ہوتے ہیں چونکہ یہ نشست انتہائی عجز وبے چارگی اور کمال انکسار فروتنی کو ظاہر کرتی ہے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس ہییت کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے۔