صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ تفاسیر کا بیان ۔ حدیث 1713

ارشاد باری تعالیٰ کہ اگر تم خطرناک جگہ پر ہو تو جیسا موقع ہو نماز پڑھوسوار ہو کر یا پیادہ اور پھر جب امن قائم ہو جائے تو جس طرح اللہ نے تمہیں سکھایا ہے اسی طرح پڑھو سعید بن جبیر نے کہا وسع کرسیہ میں کرسی سے مراد اللہ کا علم ہے بسطتہ سے مراد زیادتی اور فضیلت ہے افرغ سے مراد اتارنا "ولا یودہ" اس پر بار نہیں ہے اسی سے ادنی یعنی مجھ کو بوجھل کر دیا"اد" اور"اید"قوت کو کہتے ہیں۔سنۃ کے معنی اونگھ "لم تسنۃ" نہیں بگڑا۔"فبھت"یعنی دلیل میں ہار گیا"خاویہ" یعنی خالی جہاں کوئی ہمدم نہ ہو"عروشھا" اس کی عمارتیں"سنۃ"اونگھ"ننشزھا"ہم نکالتے ہیں اعصار، تند خو جوزمین سے اٹھ کر آسمان کی طرف ایک تیر کی طرح جاتی ہے اس میں آگ ہوتی ہے ابن عباس نے کہا صلدا چکنا صاف جس پر کچھ نہ رہے اور عکرمہ نے کہا وابل زور کامینہ طل کے معنی شبنم (اوس) یہ مومن کے نیک عمل کی مثال ہے(کہ ضائع نہیں جاتا۔ لم یتسنہ کے معنی بدل جائے، بگڑ جائے۔

راوی: عبداللہ بن یوسف , مالک , نافع

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا مَالِکٌ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا کَانَ إِذَا سُئِلَ عَنْ صَلَاةِ الْخَوْفِ قَالَ يَتَقَدَّمُ الْإِمَامُ وَطَائِفَةٌ مِنْ النَّاسِ فَيُصَلِّي بِهِمْ الْإِمَامُ رَکْعَةً وَتَکُونُ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْعَدُوِّ لَمْ يُصَلُّوا فَإِذَا صَلَّی الَّذِينَ مَعَهُ رَکْعَةً اسْتَأْخَرُوا مَکَانَ الَّذِينَ لَمْ يُصَلُّوا وَلَا يُسَلِّمُونَ وَيَتَقَدَّمُ الَّذِينَ لَمْ يُصَلُّوا فَيُصَلُّونَ مَعَهُ رَکْعَةً ثُمَّ يَنْصَرِفُ الْإِمَامُ وَقَدْ صَلَّی رَکْعَتَيْنِ فَيَقُومُ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْ الطَّائِفَتَيْنِ فَيُصَلُّونَ لِأَنْفُسِهِمْ رَکْعَةً بَعْدَ أَنْ يَنْصَرِفَ الْإِمَامُ فَيَکُونُ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْ الطَّائِفَتَيْنِ قَدْ صَلَّی رَکْعَتَيْنِ فَإِنْ کَانَ خَوْفٌ هُوَ أَشَدَّ مِنْ ذَلِکَ صَلَّوْا رِجَالًا قِيَامًا عَلَی أَقْدَامِهِمْ أَوْ رُکْبَانًا مُسْتَقْبِلِي الْقِبْلَةِ أَوْ غَيْرَ مُسْتَقْبِلِيهَا قَالَ مَالِکٌ قَالَ نَافِعٌ لَا أُرَی عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ذَکَرَ ذَلِکَ إِلَّا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

عبداللہ بن یوسف، مالک، نافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کسی نے صلوۃ خوف پڑھنے کا طریقہ دریافت کیا تو انہوں نے بیان کیا کہ امام آگے کھڑا ہو اور کچھ لوگ اس کے ساتھ کھڑے ہوں اور کچھ لوگ دشمن کے سامنے کھڑے ہوں اور وہ نماز میں شامل نہ ہوں جب یہ لوگ امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھ چکیں تو پھر پیچھے ہٹ کر ان کی جگہ چلے جائیں جو نماز میں شامل نہیں ہوئے تھے اس کے بعد وہ لوگ آئیں اور امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھیں اب امام کو سلام پھیر دینا چاہئے کیونکہ وہ دونوں رکعات پڑھ چکا ہے اور دوسرے لوگ اپنی دوسری رکعت پوری کریں اور اس طرح سب کی دو رکعتیں پوری ہو جاتی ہیں اور اگر خوف کی حالت زیادہ شدید ہو تو پھر قبلہ رخ ہونا اور سوار و پیادہ ہونا بھی ضروری نہیں ہے، امام مالک فرماتے ہیں کہ نافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں میرا خیال ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ (حدیث) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی سے روایت کی ہے۔

Narrated Nafi':
Whenever 'Abdullah bin 'Umar was asked about Salat-al-Khauf (i.e. prayer of fear) he said, "The Imam comes forward with a group of people and leads them in a one Rak'a prayer while another group from them who has not prayed yet, stay between the praying group and the enemy. When those who are with the Imam have finished their one Rak'a, they retreat and take the positions of those who have not prayed but they will not finish their prayers with Taslim. Those who have not prayed, come forward to offer a Rak'a with the Imam (while the first group covers them from the enemy). Then the Imam, having offered two Rakat, finishes his prayer. Then each member of the two groups offer the second Rak'a alone after the Imam has finished his prayer. Thus each one of the two groups will have offered two Rakat. But if the fear is too great, they can pray standing on their feet or riding on their mounts, facing the Qibla or not." Nafi added: I do not think that 'Abdullah bin 'Umar narrated this except from Allah's Apostle (See Hadith No. 451, Vol 5 to know exactly "The Fear Prayer.")

یہ حدیث شیئر کریں