مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آداب کا بیان۔ ۔ حدیث 671

یرحمک اللہ کہنا فرض یا واجب؟

راوی:

حدیث کی یہ عبارت ہر مسلمان پر حق ہے کہ وہ چھینکنے والے کے جواب میں یرحمک اللہ کہے بظاہر اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ چھینکنے والا الحمدللہ کہے تو اس سننے والے ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ جواب میں یرحمک اللہ کہے۔ لیکن اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں۔ حنفی مسلک کے اعتبار سے زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ جواب میں یرحمک اللہ کہنا واجب علی الکفایہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر چھینکنے والے کی حمد کو سننے والے ایک سے زائد ہوں تو وہاں موجود سب میں سے کسی ایک شخص کا یرحمک اللہ کہہ دینا سب کے ذمہ سے جواب کا وجوب ساقط کر دے گا۔ جب کہ ایک قول میں اس جواب کو مستحب کہا گیا ہے کہ اس کے برخلاف سفر السعادۃ میں مصنف نے یہ لکھا ہے کہ اس بارے میں منقول صحیح احادیث کا ظاہری مفہوم یہ واضح کرتا ہے کہ چھینکنے والے کے جواب میں یرحمک اللہ کہنا سننے والے ہر مسلمان پر فرض ہے اور وہاں موجودہ لوگوں میں سے کسی ایک کا جواب دیدینا اس فرض کو سب کے ذمہ سے ساقط نہیں کرتا۔چنانچہ اکابر علماء کی ایک جماعت کا مسلک اسی قول پر ہے ۔شوافع کا مسلک یہ ہے کہ چھینکنے والے کا جواب دینا سنت علی الاکفایہ ہے لیکن افضل یہی ہے کہ حاضرین میں ہر شخص جواب میں یرحمک اللہ کہے حضرت امام مالک کے مسلک میں اختلافی قول ہیں کہ چھینکنے والے کے جواب میں یرحمک اللہ کہنا آیا سنت ہے یا واجب؟ لیکن اس امر پر اتفاق ہے کہ یہ اختلاف اس صورت میں ہے کہ جب چھینکنے والا الحمدللہ کہے اور اس کو حاضرین سنیں لہذا اگر چھینکنے والا الحمدللہ نہ کہے تو وہ جواب کا مستحق نہیں ہوگا اسی طرح اس نے الحمدللہ تو کہا لیکن اتنی آواز سے کہا کہ کسی ایک نے بھی نہیں سنا تو اس صورت میں بھی جواب دینا یعنی یرحمک اللہ کہنا لازم نہیں ہوگا۔چنانچہ لفظ سمعہ جو اس حدیث میں منقول ہے اس بات پر دلالت کرتا ہے اور یہی حکم سلام اور تمام فرض کفایہ امور جیسے عیادت مریض، تجہیز میت اور نماز جنازہ وغیرہ کا بھی ہے۔
شرح السنہ میں لکھا ہے کہ یہ حدیث اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ چھینکنے والے کو چاہے کہ الحمد للہ بلند آواز سے کہے تاکہ اہل مجلس سن لیں اور وہ جواب کا مستحق ہو۔

یہ حدیث شیئر کریں