مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آداب کا بیان۔ ۔ حدیث 675

جس شخص کو لگاتار چھینک آتی رہے اس کے جواب کا مسئلہ

راوی:

وعن سلمة بن الأكوع أنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم وعطس رجل عنده فقال له يرحمك الله ثم عطس أخرى فقال الرجل مزكوم . رواه مسلم وفي رواية الترمذي أنه قال له في الثالثة إنه مزكوم .

" اور حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس شخص کی چھینک کا جواب دیتے سنا جو اس وقت آپ کے پاس بیٹھا ہوا تھا چنانچہ آپ نے اس کے جواب میں فرمایا یرحمک اللہ پھر جب اس کو دوسری چھینک آئی تو آپ نے فرمایا کہ اس شخص کو زکام ہو گیا ہے اور ترمذی کی ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ نے اس شخص کو تیسری بار چھینکنے پر یہ فرمایا کہ اس شخص کو زکام ہو گیا ہے۔

تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کا مطلب یہ تھا کہ اس شخص کو چونکہ زکام ہو گیا ہے اس لئے یہ باربار چھینکے گا اور الحمد للہ کہے گا لہذا اس کے جواب میں باربار یرحمک اللہ کہنے کی ضرورت نہیں واضح رہے کہ ابوداؤد اور ترمذی کی ایک اور روایت میں یہ فرمایا گیا کہ جس شخص کو لگاتار چھینک آتی رہے اور وہ الحمد للہ کہتا رہے تو تین چھینکوں تک جواب دیا جائے تیسری مرتبہ کے بعد اختیار ہوگا کہ چاہے جواب دے چاہے نہ دے۔ پس حدیث کا حاصل یہ ہوا کہ اگر کسی شخص کو لگاتار چھینک آتی رہے تو اس کے جواب میں تین چھینکوں تک یرحمک اللہ تو واجب یا سنت موکدہ ہے تیسری مرتبہ کے بعد سکوت اور جواب کے درمیان اختیار ہوگا کہ چاہے تو تین مرتبہ کے بعد جواب نہ دے جو رخصت یعنی شریعت کی طرف سے آسانی اور چاہے تین مرتبہ کے بعد بھی جواب دیتا رہے جو مستحب ہے گویا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ تین مرتبہ کے بعد جواب دینا کوئی ناجائز بات نہیں ہے لیکن واجب یاسنت مؤ کدہ نہیں ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں