مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آداب کا بیان۔ ۔ حدیث 717

کسی منافق کو سید نہ کہو

راوی:

وعنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال لا تقولوا للمنافق سيد فإنه إن يك سيدا فقد أسخطتم ربكم . رواه أبو داود

" اور حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کسی منافق کو سید نہ کہو یعنی سردار آقا نہ کہو کیونکہ اگر وہ سید ہو اور تم نے اس کو سید کہا تو تم نے اپنے پروردگار کو ناراض کیا۔ (ابوداؤد)

تشریح
عربی میں سید کے معنی ہیں سردار آقا۔ ظاہر ہے کہ کسی منافق کو یہ مقام حاصل نہیں ہو سکتا کہ اس کو کوئی مسلمان سردار آقا کہے بلکہ اگر کوئی منافق واقعتا سردار ہو بایں طور کہ وہ اپنی قوم کا سربراہ ہو یا کچھ لوگوں کا حاکم ہو اور غلام و باندی اور دوسرے اسباب کا مالک ہو تو اس کے باوجود وہ اس قابل نہیں سمجھا جائے گا کہ کوئی مسلمان اس کو سردار و آقا کہہ کر مخاطب کرے یا اس کو سید کہے اور اگر کوئی مسلمان اس کو سید و سردار و آقا کہے گا تو وہ اللہ کے غضب کا مستوجب ہو گا کیونکہ یہ لفظ سید تعظیم و احترام پر دلالت کرتا ہے اور وہ منافق مسلمانوں کی طرف سے کسی بھی تعظیم کا مستحق نہیں ہے اور اگر صورت یہ ہو کہ وہ واقعتا کسی بھی طرح کی سیادت و سرداری رکھتا ہی نہ ہو تو اس کو سید کہنا اور بھی برا ہوگا کیونکہ اس کے باوجود اس کو سید کہنے والا نہ صرف مذکورہ حکم کی خلاف و رزی بلکہ جھوٹ اور نفاق کا بھی مرتکب ہوگا۔ظاہر تو یہ ہے کہ اس بارے میں کافر، گم کردہ راہ ہدایت اور علی الاعلان گناہ کا ارتکاب کرنے والے مسلمان بھی منافق کے حکم میں داخل ہوں لیکن حدیث میں خاص طور پر صرف منافق ہی کا ذکر ہے اس لئے کہا گیا ہے کہ منافق چونکہ بہر حال ظاہر طور پر مسلمان ہوتا ہے اس لئے عام مسلمانوں کا اس کی تعریف و خوشامند میں مبتلا ہونا زیادہ قریبی احتمال رکھتا ہے لہذا صرف منافق کا ذکر کر کے اس بات کی ممانعت فرمائی گئی کہ اس کو سید نہ کہو۔

یہ حدیث شیئر کریں