دو ایسے چچا زاد کی وراثت کا حکم جس میں سے ایک شوہر ہو اور دوسرا ماں کی طرف سے شریک بھائی ہو۔
راوی:
أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْحَارِثِ الْأَعْوَرِ قَالَ أُتِيَ عَبْدُ اللَّهِ فِي فَرِيضَةِ بَنِي عَمٍّ أَحَدُهُمْ أَخٌ لِأُمٍّ فَقَالَ الْمَالُ أَجْمَعُ لِأَخِيهِ لِأُمِّهِ فَأَنْزَلَهُ بِحِسَابِ أَوْ بِمَنْزِلَةِ الْأَخِ مِنْ الْأَبِ وَالْأُمِّ فَلَمَّا قَدِمَ عَلِيٌّ سَأَلْتُهُ عَنْهَا وَأَخْبَرْتُهُ بِقَوْلِ عَبْدِ اللَّهِ فَقَالَ يَرْحَمُهُ اللَّهُ إِنْ كَانَ لَفَقِيهًا أَمَّا أَنَا فَلَمْ أَكُنْ لِأَزِيدَهُ عَلَى مَا فَرَضَ اللَّهُ لَهُ سَهْمٌ السُّدُسُ ثُمَّ يُقَاسِمُهُمْ كَرَجُلٍ مِنْهُمْ
حارث اعور بیان کرتے ہیں حضرت عبداللہ کی خدمت میں دو چچازاد بھائیوں کی وراثت کامسئلہ لایا گیا جس میں سے ایک ماں کی طرف سے شریک بھائی تھا تو حضرت عبداللہ نے جواب دیا یہ سارا مال اس کے ماں کی طرف سے شریک بھائی کو مل جائے گا انہوں نے تقسیم میں اس بھائی کو سگے بھائی کی مانند قرار دیا۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو میں نے ان سے اس کے بارے میں دریافت کیا اور حضرت عبداللہ کے جواب سے بھی آگاہ کیا تو انہوں نے ارشاد فرمایا اللہ ان پر رحم کرے اگر وہ حقیقی عالم ہوتے تو یہ فتوی نہ دیتے میں اس کے حصے میں اس چیز سے اضافہ نہیں کروں گا جو اللہ نے اس کے لئے مقرر کیا ہے وہ چھٹاحصہ ہے پھر وہ ان لوگوں کے درمیان ان کے ایک عام فرد کی مانند وراثت تقسیم کرتے۔