مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آداب کا بیان۔ ۔ حدیث 796

خیانت و جھوٹ، ایمان کی ضد میں

راوی:

وعن صفوان بن سليم أنه قيل لرسول الله صلى الله عليه وسلم أيكون المؤمن جبانا ؟ قال نعم . فقيل أيكون المؤمن بخيلا ؟ قال نعم . فقيل أيكون المؤمن كذابا ؟ قال لا . رواه مالك والبيهقي في شعب الإيمان مرسلا

" اور حضرت صفوان ابن سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ سے پوچھا گیا کہ کیا مومن بزدل ہو سکتا ہے آپ نے فرمایا ہو سکتا ہے پھر آپ سے پوچھا گیا کیا مومن بخیل ہو سکتا ہے آپ نے فرمایا ہو سکتا ہے پھر جب آپ سے پوچھا گیا کہ کیا مومن بہت جھوٹا ہو سکتا ہے تو آپ نے فرمایا کہ نہیں اس روایت کو مالک نے اور بہیقی نے شعب الایمان میں بطریق ارسال نقل کیا ہے۔

تشریح
مطلب یہ ہے کہ کوئی مومن کسی موقع پر بزدلی دکھا سکتا ہے اور کسی صورت میں بخیل بی ہو سکتا ہے لیکن وہ جھوٹا نہیں ہو سکتا، کیونکہ ایمان کی صداقت و حقانیت کذب کے منافی ہے جو اپنی اصلی اور نفس الامر کے اعتبار سے باطل ہے علماء نے لکھا ہے کہ یہ حدیث بھی اوپر کی حدیث کی تشریح میں ذکر کردہ تاویلات پر محمول ہے۔ حدیث میں کذاب مبالغہ کے صیغہ کے ساتھ ذکر کرنا ، اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ اگر بتقاضائے بشریت کسی موقع پر مومن سے جھوٹ سرزد ہو جائے جیسا کہ بعض صورتوں میں دنیا کی کسی ناجائز غرض کےء تحت نہیں بلکہ مصالح اور حکمت عملی کے پیش نظر جھوٹ بولنا بھی ضروری ہو جاتا ہے تو ایسی صورت مستثنی ہے اس کو ایمان کے منافی نہیں کہا جا سکتا۔
حضرت صفوان کا کچھ ذکر خیر : اس موقع پر اس حدیث کے راوی حضرت صفوان کا کچھ ذکر خیر کر دینا موزوں ہو گا یہ عظیم ہستی جن کا پورا نام صفوان ابن سلیم زہری ہے حضرت حمید بن عبدالرحمن ابن عوف کے آزاد کردہ غلام ان کا شمار مدینہ کے مشہور و ثقہ اور جلیل القدر تابعین میں ہوتا ہے حضرت انس بن مالک رضی اللہ علیہ وغیرہ سے روایت حدیث کرتے ہیں اللہ کے صالح اور برگزیدہ بندوں میں سے تھے بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے چالیس سال تک اپنے پہلو کو زمین سے نہیں لگایا یہاں تک کہ وقت مرگ بھی بیٹھے رہے اور اسی حالت میں جان جا آفریں کے سپرد کی لوگ کہتے تھے کہ عبادت الٰہی اور سجدہ کی کثرت کی وجہ سے ان کی پیشانی میں سوراخ ہو گیا تھا قناعت خود داری کا یہ عالم تھا کہ باوجود احتیاج کے شاہی عطیات کو قبول نہیں کرتے تھے ان کے فضائل و مناقب بہت زیادہ ہیں ۔١٣٢ھ میں انتقال ہوا۔

یہ حدیث شیئر کریں