مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آداب کا بیان۔ ۔ حدیث 816

خوش طبعی کا بیان

راوی:

مزاح، میم کے زیر کے ساتھ مصدر ہے جس کے معنی خوش طبعی کرنا ہنسنا مذاق کرنا اور میم کے پیش کے ساتھ یعنی مزاح اسم مصدر ہے جس کے معنی مطالبہ یعنی خوش طبعی و ظرافت کے ہیں۔عربی میں لفظ مزاح کا اطلاق اس خوش طبعی اور ہنسی مذاق پر ہوتا ہے کہ جس میں کسی کی دل شکنی اور ایذاء رسانی کا پہلو نہ ہو اس کے برخلاف جس خوش طبعی اور ہنسی مذاق کا تعلق دل شکنی اور ایذاء رسانی سے ہو اس کو سخریہ کہتے ہیں۔
ایک حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ لاتمار اخاک ولاتمازحہ، یعنی اپنے مسلمان بھائی سے جھگڑا فساد نہ کرو اور نہ اس کے ساتھ ہنسی مذاق کرو تو علماء لکھتے ہیں کہ وہ مزاح و ظرافت ممنوع ہے جس میں حد سے تجاوز کیا جائے اور اس کو عادت بنا لیا جائے کیونکہ ہر وقت مزاح و ظرافت میں مبتلا رہنا اور اس میں حد سے تجاوز کرنا بہت زیادہ ہنسنے اور قہقہ لگانے کا باعث ہوتا ہے قلب و ذہن کو قساوت اور بے حسی میں مبتلا کر دیتا ہے ذکر الٰہی سے غافل کر دیتا ہے مہمات دین میں غور و فکر اور پیش قدمی سے باز رکھتا ہے اور اکثر اوقات اس کا انجام ایذا رسانی اور آپس میں بغض و عناد کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے علاوہ ازیں یہ بھی حقیقت ہے جو شخص ہر وقت ہنسی مذاق کرتا رہتا ہے اس کی شخص بری طرح متاثر ہوتی ہے اور مجروح ہوتی ہے اس کا کوئی دبدبہ قائم نہیں رہتا اور نہ اس کو عظمت اور اس کا وقار باقی رہتا ہے اس کے برعکس جو مزاح و ظرافت حد کے اندر اور کبھی کھبار کی جائے وہ نہ صرف مباح ہے بلکہ صحت مزاج اور و نور نشاط اور سلامت طبع کی علامت بھی ہے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی مزاح و ظرافت کو اختیار فرماتے تھے جس سے آپ کا مقصد مخاطب کے دل بستگی و خوش وقتی اور آپس میں محبت و موانست کے جذبات کو مستحکم کرنا ہوتا تھا اور یہ چیز سنت مستحبہ ہے اور اگر اس موقع پر یہ اشکال واقع ہو کہ یہ بات کہ وہی مزاح و ظرافت مباح جو کبھی کبھی ہو اس روایت کے مخالفت ہے کہ یعنی میں نے رسول اللہ سے زیادہ مزاح کرنے والا کسی کو نہیں دیکھا تو اس کا جواب مختصر یہ ہوگا کہ زیادہ مزاح و ظرافت کرنے کی ممانعت اس وجہ سے ہے کہ اس سے نفس پر قابو نہیں رہتا اور ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر کوئی شخص ایسا نہیں جو اپنے نفس کو قابو میں رکھ سکے لہذا یہ چیز زیادہ مزاح کرنا ان امور میں سے ہے جو صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے ساتھ مخصوص ہیں دوسروں کے لئے ان سے اجتناب ہی اولی ہے اس کی تائید ترمذی کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے جو آگے آئے گی صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ ہمارے ساتھ مزاح فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا میں مزاح میں سچ کہتا ہون حاصل یہ کہ مزاح کرنے کی ممانعت کا تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا دوسرے لوگوں سے ہے ہاں اگر کوئی شخص حد پر قائم رہے اور نفس پر قابو رکھے اور راہ اعتدال سے منحرف نہ ہونے پر قادر ہو وہ بھی اس ممانعت سے مستثنی ہوگا۔

یہ حدیث شیئر کریں