آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش طبعی
راوی:
عن أنس قال إن كان النبي صلى الله عليه وسلم ليخالطنا حتى يقول لأخ لي صغير يا أبا عمير ما فعل النغير ؟ كان له نغير يلعب به فمات . متفق عليه
" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے اختلاط و خوش طبعی فرمایا کرتے تھے یہاں تک کہ میرے چھوٹے بھائی سے از راہ مذاق فرماتے ابوعمیر! نغیر کہاں گیا؟ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں میرے اس چھوٹے بھائی کے پاس ایک نغیر تھا جس سے وہ کھیلا کرتا تھا اور جو مر گیا تھا۔ (بخاری)
تشریح
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے چھوٹے بھائی کا ذکر کیا ہے ان کا نام کبشہ تھا اور وہ ان کے اخیافی یعنی ماں شریک بھائی تھے ان کے باپ کا نام ابوطلحہ زید ابن سہیل انصاری تھا۔ نغیر تصغیر ہے نغر کی جو ایک چھوٹے پرندے کا نام ہے اور چھوٹی چڑیا کی طرح ہوتا ہے اور اس کی چونچ سرخ ہوتی ہے بعض حضرات نے یہ کہا کہ کہ وہ پرندہ چڑیا کی طرح سرخ سر والا ہوتا ہے نیز بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ اہل مدینہ اس پرندے کو بلبل کہتے تھے ہو سکتا ہے کہ یہ وہی پرندہ ہو جس کو ہمارے ہاں لال کہتے ہیں۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چھوٹے بھائی کبشہ اس پرندے کو لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے تھے جیسا کہ چھوٹے بچوں کو جب کوئی چڑیا وغیرہ مل جاتی ہے تو اس کے ساتھ کھیلا کرتے ہیں اور اس کو اپنے ساتھ رکھتے ہیں پھر ایک دن اچانک وہ پرندہ مر گیا اس کے بعد جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے تو آپ ان کو از راہ مذاق چھیڑتے اور پوچھتے کہ اے ابوعمیر تمہارا نغیر کہاں گیا؟گویا ان کو مخاطب کرتے وقت ظرافت کے ساتھ تفنن کلام کا اسلوب بھی اختیار فرماتے یعنی نغیر کی مناسبت سے اور اس لفظ کے قافیہ کے طور پر ان کو ابوعمیر کی کنیت کے ذریعہ مخاطب فرماتے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بچوں کو چڑیا وغیرہ سے دل بہلانا اور ان کے ساتھ کھیل کود کرنا جائز ہے بشرطیکہ اس کو تکلیف و ایذاء نہ پہنچائیں نیز اس سے معلوم ہوا کہ کسی چھوٹے اور کمسن بچے کی کنیت مقرر کرنا جائز ہے اور یہ جھوٹ میں داخل نہیں ہے نیک فالی ہے۔