کفار کے مقابلہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اظہار فخر
راوی:
وعن البراء بن عازب قال في يوم حنين كان أبو سفيان بن الحارث آخذا بعنان بغلته يعني بغلة رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما غشيه المشركون نزل فجعل يقول أنا النبي لا كذب أنا ابن عبد المطلب
قال فما رئي من الناس يومئذ أشد منه . متفق عليه
" اور حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ غزوہ حنین کے دن ان کے خچر یعنی رسول اللہ کے خچر کی باگ سفیان ابن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پکڑ رکھی تھی جو حارث بن عبدالمطلب کے لڑکے ہونے کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی تھے اور عرب کے دلیر ، جیالے جوانوں میں ایک بہادر مرد تھے چنانچہ جنگ کے دوران جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکوں نے چاروں طرف سے گھیر لیا تو آپ (اپنے خچر سے) اتر پڑے اور یہ رجز فرمانا شروع کیا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہوں اس میں کوئی جھوٹ نہیں اور میں عبدالمطلب کا سپوت ہوں، راوی کا بیان ہے کہ پس اس دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ بہادر دلیر اور کسی کو نہیں دیکھا گیا۔ (بخاری، مسلم)
تشریح
یہ حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بے مثال شجاعت و جوان مردی پر دلالت کرتی ہے کہ ایک ایسے معرکے میں جہاں ہوازن و غطفان کے قبائل سمیت عرب کے دوسرے بہت سے جنگجو قبائل برسرپیکار تھے اور انہوں نے اپنی بے پناہ خرابی قوت اور انفرادی طاقت کے ذریعہ اسلامی لشکر پر اتنا زبردست دھاوا بول دیا تھا کہ شکست کی صورت ظاہر ہونے لگی تھی تو آپ بھی خچر پر سوار ہو کر مجاہدین اسلام کے شانہ بشانہ لڑ رہے تھے اور اپنے خچر کو ایڑ لگا لگا کر کفار کے لشکر پر حملہ کر رہے تھے اور پھر جب ان دشمنان دین نے آپ کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور خچر کو آگے بڑھنے کا راستہ نہ مل سکا تو آپ اس سے اتر پڑے اور پیادہ ہو کر بڑی دلیری اور جوان مردی کے ساتھ دشمن کے لشکر پر ضرب لگائی آخرکار اللہ نے ان کو شکست سے درچار کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح نصیب ہوئی۔ اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حسب و نسب اور خاندانی وجاہت پر اظہار فخر کرنے اور نازاں ہونے سے منع فرمایا ہے لیکن آپ کا بطور رجزیہ فرمانا کہ میں عبدالمطلب کا سپوت ہوں اس طرح کا اظہار فخر نہیں ہے جو ممنوع ہے کیونکہ وہ فخر ممنوع ہے جو نہ زمانہ جاہلیت کے رسم کے مطابق، بیجا اظہار نام و نمود، تعصب و ہٹ دھرمی اور نفس کے گھمنڈ کے طور پر ہو جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مذکورہ فخر دین کی طاقت اور شان و شوکت کو بڑھانے اور کفار کے مقابلہ میں اپنا رعب اور دبدبہ ظاہر کرنے کے لئے تھا اور اس طرح کا فخر جائز ہے علاوہ ازیں ایک بات یہ تھی کہ زمانہ جاہلیت میں بعض اہل عرب جیسے کاہن اور اہل کتاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ظاہر ہونے سے پہلے بعثت نبوی کی خبر دیا کرتے تھے اور نبی آخرالزمان کی جو نشانیاں اور علامتیں بتایا کرتے تھے ان میں ایک نشانی یہ بھی تھی کہ وہ پیغمبر عبدالمطلب کی اولاد سے ہوں گے۔