حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ دادا کو باپ کی مانند قرار دیتے ہیں۔
راوی:
أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى شُرَيْحٍ وَعِنْدَهُ عَامِرٌ وَإِبْرَاهِيمُ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ فِي فَرِيضَةِ امْرَأَةٍ مِنَّا الْعَالِيَةِ تَرَكَتْ زَوْجَهَا وَأُمَّهَا وَأَخَاهَا لِأَبِيهَا وَجَدَّهَا فَقَالَ لِي هَلْ مِنْ أُخْتٍ قُلْتُ لَا قَالَ هَلْ مِنْ أُخْتٍ قُلْتُ لَا قَالَ لِلْبَعْلِ الشَّطْرُ وَلِلْأُمِّ الثُّلُثُ قَالَ فَجَهِدْتُ عَلَى أَنْ يُجِيبَنِي فَلَمْ يُجِبْنِي إِلَّا بِذَلِكَ فَقَالَ إِبْرَاهِيمُ وَعَامِرٌ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ مَا جَاءَ أَحَدٌ بِفَرِيضَةٍ أَعْضَلَ مِنْ فَرِيضَةٍ جِئْتَ بِهَا قَالَ فَأَتَيْتُ عَبِيدَةَ السَّلْمَانِيَّ وَكَانَ يُقَالُ لَيْسَ بِالْكُوفَةِ أَحَدٌ أَعْلَمَ بِفَرِيضَةٍ مِنْ عَبِيدَةَ وَالْحَارِثِ الْأَعْوَرِ وَكَانَ عَبِيدَةُ يَجْلِسُ فِي الْمَسْجِدِ فَإِذَا وَرَدَتْ عَلَى شُرَيْحٍ فَرِيضَةٌ فِيهَا جَدٌّ رَفَعَهُمْ إِلَى عَبِيدَةَ فَفَرَضَ فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ إِنْ شِئْتُمْ نَبَّأْتُكُمْ بِفَرِيضَةِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ فِي هَذَا جَعَلَ لِلزَّوْجِ ثَلَاثَةَ أَسْهُمٍ النِّصْفَ وَلِلْأُمِّ ثُلُثُ مَا بَقِيَ السُّدُسُ مِنْ رَأْسِ الْمَالِ وَلِلْأَخِ سَهْمٌ وَلِلْجَدِّ سَهْمٌ قَالَ أَبُو إِسْحَقَ الْجَدُّ أَبُو الْأَبِ
ابواسحاق بیان کرتے ہیں میں قاضی شریح کے پاس گیا اس وقت ان کے پاس عامر، ابراہیم، عبدالرحمن بن عبداللہ موجود تھے اور ہمارے قبیلے سے تعلق رکھنے والی ایک معزز خاتون کی وراثت کا مسئلہ درپیش تھا جس نے پسماندگان میں شوہر، ماں، باپ کی طرف سے شریک بھائی اور دادا کو چھوڑا تھا انہوں نے مجھ سے دریافت کیا کیا اس کی کوئی بہن ہے میں نے جواب دیا نہیں انہوں نے فرمایا شوہر کو نصف حصہ ملے گا اور ماں کو ایک تہائی حصہ ملے گا ابو اسحاق بیان کرتے ہیں میں نے یہ کوشش کی کہ وہ مجھے مزید جواب دیں لیکن انہوں نے مجھے اس کے علاوہ کوئی جواب نہیں دیا ابراہیم، عامر اور عبدالرحمن بن عبداللہ نے یہ کہا کہ تم جو وراثت کامسئلہ لے کر آئے ہو اس سے زیادہ پیچیدہ وراثت کامسئلہ کوئی اور نہیں آیا۔ ابواسحاق بیان کرتے ہیں میں عبیدہ سلمانی کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ کوفہ میں عبیدہ اور حارث اعور سے زیادہ علم وراثت کا اور کوئی عالم نہیں ہے عبیدہ مجلس میں تشریف فرما ہوتے تھے قاضی شریح کی خدمت میں جب بھی وراثت سے متعلق کوئی مقدمہ آتا تھا جس میں کسی اور داداکا حکم ہوتا تھا تو وہ عبیدہ کے پاس بھیج دیتے تھے اور اس مسئلے کو حل کرتے تھے میں نے عبیدہ سے یہ مسئلہ دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا اگر تم چاہو تو میں حضرت عبداللہ بن مسعود کے بیان کردہ اصول کے مطابق اسے تقسیم کرتا ہوں ایسی صورت میں حضرت عبداللہ نے شوہر کو تین حصے دینے تھے جو نصف حصہ ہوتا ہے اور باقی بچ جانے والے مال کا ایک تہائی حصہ ماں کو دینا تھاجو کل مال کا ایک تہائی حصہ ہوتا ہے بھائی کو ایک حصہ دینا تھا اور دادا کو ایک حصہ دینا تھا۔ ابواسحاق بیان کرتے ہیں یہاں دادا سے مراد باپ کا باپ ہے۔