اپنے زمانہ جاہلیت کے کسی تعلق پر فخر نہ کرو
راوی:
وعن عبد الرحمن بن أبي عقبة عن أبي عقبة وكان مولى من أهل فارس قال شهدت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم أحدا فضربت رجلا من المشركين فقلت خذها مني وأنا الغلام الفارسي فالتفت إلي فقال هلا قلت خذها مني وأنا الغلام الأنصاري ؟ . رواه أبو داود
" اور حضرت عبدالرحمن ابن ابوعقبہ حضرت ابوعقبہ سے نقل کرتے ہیں کہ جو کسی انصاری کے ایک فارس نثراز مولیٰ تھے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ کے ہمراہ میں بھی غزوہ احد میں شریک تھا چنانچہ معرکہ آرائی کے دوران میں نے مشرکین میں سے ایک شخص کو (تلوار یا نیزہ کھینچ کر) مارا اور کہا کہ ایک وار میری طرف سے بھی کھا میں ایک فارسی غلام نثراد ہوں (جو دلیر اور بہت مار دینے والا ہے) رسول اللہ نے میرا یہ جملہ سنا تو میری طرف متوجہ ہو گئے اور فرمایا کہ تم نے اس طرح کیوں نہیں کہا کہ لے میری طرف سے بھی ایک وار کھا میں ایک انصاری غلام ہوں۔ (ابوداؤد)
تشریح
ا نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تنبیہ کا مطلب یہ تھا کہ اس موقع پر اگر تم اپنی نسبت فارس کی طرف جو مذہبا مجوسی اور آتش پرست قوم ہے کرنے کی بجائے انصاری کی طرف کرتے جو بہت بہادر اور اللہ کے دین اور رسول اللہ کے حامی و مددگار ہیں تو زیادہ اچھا ہوتا اور اس وجہ سے بھی موزوں تھا کہ مولیٰ القوم منھم۔ (کسی قوم کے مولیٰ کا شمار اسی قوم میں ہوتا ہے) کے بموجب جب تمہارا تعلق ہی سے ہے۔
" مولیٰ " کی دو قسمیں ہیں ایک تو مولیٰ عتاقہ یعنی وہ غلام جس کو اس کے مالک نے آزاد کر دیا ہو اور دوسرے یہ کہ وہ لوگ جن کا وطنی تعلق غیرب عرب علاقوں اور ملکوں میں ہوتا تھا اور اسلام قبول کر لیتے تھے اور ہجرت کر کے مدینہ منورہ آ جاتے تھے وہ اپنے آپ کو مہاجرین و انصار کے اختیار میں رہتی تھی ان کے سیاہ و سفید وہی مالک و متصرف ہوتے تھے ایسے لوگوں کو مولیٰ الموالات کہا جاتا تھا حضرت ابوعقبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی جن کا اصل نام رشد تھا اسی طرح کے مولیٰ تھے کہ وہ اصلا فارس کے رہنے والے تھے اور جب انہوں نے اسلام قبول کیا اور اپنے ملک فارس سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ آ گئے تو کسی انصاری کے زیر تربیت رہے اس حدیث کے روای حضرت عبدالرحمن انہی ابوعقبہ کے صاحبزادے ہیں اور ان کا شمار ثقہ تابعین میں ہوتا ہے۔