عصبیت کے معنی
راوی:
عن عبادة بن كثير الشامي من أهل فلسطين عن امرأة منهم يقال لها فسيلة أنها قالت سمعت أبي يقول سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت يا رسول الله أمن العصبية أن يحب الرجل قومه ؟ قال لا ولكن من العصبية أن ينصر الرجل قومه على الظلم . رواه أحمد وابن ماجه
" اور حضرت عبادہ بن کثیر شامی جن کا تعلق فلسطین سے تھا اپنے لوگوں میں ایک خاتون سے جن کا نام فسیلہ تھا نقل کرتے ہیں کہ وہ خاتون بیان کرتی تھیں میں نے اپنے والد کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ سے سوال کرتے ہوئے عرض کیا یا رسول اللہ کیا عصبیت اس کو کہتے ہیں کہ کوئی شخص اپنی قوم و جماعت کو عزیز رکھے؟ آپ نے فرمایا نہیں، بلکہ عصبیت اس کو کہتے ہیں کہ کوئی شخص ظلم کے معاملہ میں اپنی قوم و جماعت کی حمایت و مدد کرے۔ (احمد، ابن ماجہ)
تشریح
اس ارشاد گرامی" عصبیت " کے مفہوم پر بڑے سادہ انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے اور اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ اپنی جماعت اور اپنی قوم کی جائز حمایت کرنا اور اس کے فطری و قانونی حقوق و مفادات کے حصول و تحفظ کے لئے اسی طرح جدوجہد کرنا کہ دوسروں کے حقوق و مفادات پر کوئی زد نہ پڑے عصبیت کے معنی میں داخل نہیں ہے ہاں اگر اپنی جماعت و قوم کی اس طرح حمایت کی جائے جس سے دوسروں کے تئیں ظلم و تعدی کے جذبات ظاہر ہوتے ہوں، یا اپنی جماعت و قوم کی جدوجہد میں معاونت کرنا جو سراسر زیادتی اور انتہا پسندی پر مبنی ہو نیز اس جدوجہد کا کوئی قانونی جواز موجود نہ ہو تو اس کو عصبیت کہا جائے گا، اور شریعت کی نظر میں اس حمایت و معاونت کی کوئی حقیقت نہیں ہوگی۔