خالہ ماں کا درجہ رکھتی ہے
راوی:
وعن ابن عمر أن رجلا أتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله إني أصبت ذنبا عظيما فهل لي من توبة ؟ قال هل لك من أم ؟ قال لا . قال وهل لك من خالة ؟ . قال نعم . قال فبرها . رواه الترمذي
" اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ مجھ سے ایک بڑا گناہ صادر ہو گیا ہے میری توبہ کے لئے کیا چیز ہے یعنی کوئی ایسا عمل بتا دیں جس کو اختیار کر کے میں اللہ کی رحمت کو اپنی طرف متوجہ کرا سکوں اور اپنا گناہ معاف کروا سکوں۔ حضور نے فرمایا کیا تمہاری ماں ہے؟ اس نے کہا کہ نہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو کیا تمہاری خالہ ہے اس نے کہا ہاں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اس کے ساتھ نیک سلوک کرو یعنی اس کی خدمت و اطاعت کرو اور اس کی دیکھ بھال رکھو نیز اپنی حثییت و اطاعت کے مطابق اس کی مالی امداد و اعانت کرتے رہو۔ (ترمذی)
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ناطے داروں کے ساتھ حسن سلوک ، گناہوں کے کفارہ کا ذریعہ ہے اگرچہ وہ گناہ کبیرہ ہی کیوں نہ ہو تاہم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعہ بتایا گیا ہو کہ حسن سلوک کا کبیرہ گناہ کے کفارہ کا سبب بننا اس شخص کے ساتھ مخصوص ہے لہذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرما دیا کہ تم اپنی خالہ سے حسن سلوک کرو تمہارا گناہ بخش دیا جائے گا اور یا یہ کہ اس شخص سے جو گناہ صادر ہوا تھا وہ کبیرہ گناہ نہیں تھا بلکہ حقیقت میں صغیرہ گناہ تھا البتہ اس شخص نے اپنے مضبوط جذبہ ایمانی اور احتیاط و تقوی کی بنا پر اس گناہ کو ایک بڑا گناہ سمجھا اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ خالہ ، ماں کا درجہ رکھتی ہے۔