صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ تفاسیر کا بیان ۔ حدیث 1919

اللہ تعالیٰ کا قول کہ جب موسیٰ نے اپنے خادم سے کہا کہ میں اسی طرح چلتا رہوں گا جب تک دو دریاؤں کے سنگم پر نہ پہنچ جاؤں یا زمانہ تک اسی طرح چلتا رہوں گا حقبا زمانہ دراز احقاب اس کی جمع ہے۔

راوی: حمیدی , سفیان , عمرو بن دینار , سعید بن جبیر

حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ قَالَ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ قَالَ قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ إِنَّ نَوْفًا الْبِکَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَی صَاحِبَ الْخَضِرِ لَيْسَ هُوَ مُوسَی صَاحِبَ بَنِي إِسْرَائِيلَ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ کَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ حَدَّثَنِي أُبَيُّ بْنُ کَعْبٍ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ مُوسَی قَامَ خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ فَسُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ فَقَالَ أَنَا فَعَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ فَأَوْحَی اللَّهُ إِلَيْهِ إِنَّ لِي عَبْدًا بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ هُوَ أَعْلَمُ مِنْکَ قَالَ مُوسَی يَا رَبِّ فَکَيْفَ لِي بِهِ قَالَ تَأْخُذُ مَعَکَ حُوتًا فَتَجْعَلُهُ فِي مِکْتَلٍ فَحَيْثُمَا فَقَدْتَ الْحُوتَ فَهُوَ ثَمَّ فَأَخَذَ حُوتًا فَجَعَلَهُ فِي مِکْتَلٍ ثُمَّ انْطَلَقَ وَانْطَلَقَ مَعَهُ بِفَتَاهُ يُوشَعَ بْنِ نُونٍ حَتَّی إِذَا أَتَيَا الصَّخْرَةَ وَضَعَا رُئُوسَهُمَا فَنَامَا وَاضْطَرَبَ الْحُوتُ فِي الْمِکْتَلِ فَخَرَجَ مِنْهُ فَسَقَطَ فِي الْبَحْرِ فَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا وَأَمْسَکَ اللَّهُ عَنْ الْحُوتِ جِرْيَةَ الْمَائِ فَصَارَ عَلَيْهِ مِثْلَ الطَّاقِ فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ نَسِيَ صَاحِبُهُ أَنْ يُخْبِرَهُ بِالْحُوتِ فَانْطَلَقَا بَقِيَّةَ يَوْمِهِمَا وَلَيْلَتَهُمَا حَتَّی إِذَا کَانَ مِنْ الْغَدِ قَالَ مُوسَی لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَائَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا قَالَ وَلَمْ يَجِدْ مُوسَی النَّصَبَ حَتَّی جَاوَزَا الْمَکَانَ الَّذِي أَمَرَ اللَّهُ بِهِ فَقَالَ لَهُ فَتَاهُ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَی الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهِ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْکُرَهُ وَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ عَجَبًا قَالَ فَکَانَ لِلْحُوتِ سَرَبًا وَلِمُوسَی وَلِفَتَاهُ عَجَبًا فَقَالَ مُوسَی ذَلِکَ مَا کُنَّا نَبْغِي فَارْتَدَّا عَلَی آثَارِهِمَا قَصَصًا قَالَ رَجَعَا يَقُصَّانِ آثَارَهُمَا حَتَّی انْتَهَيَا إِلَی الصَّخْرَةِ فَإِذَا رَجُلٌ مُسَجًّی ثَوْبًا فَسَلَّمَ عَلَيْهِ مُوسَی فَقَالَ الْخَضِرُ وَأَنَّی بِأَرْضِکَ السَّلَامُ قَالَ أَنَا مُوسَی قَالَ مُوسَی بَنِي إِسْرَائِيلَ قَالَ نَعَمْ أَتَيْتُکَ لِتُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رَشَدًا قَالَ إِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِي صَبْرًا يَا مُوسَی إِنِّي عَلَی عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَنِيهِ لَا تَعْلَمُهُ أَنْتَ وَأَنْتَ عَلَی عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَکَهُ اللَّهُ لَا أَعْلَمُهُ فَقَالَ مُوسَی سَتَجِدُنِي إِنْ شَائَ اللَّهُ صَابِرًا وَلَا أَعْصِي لَکَ أَمْرًا فَقَالَ لَهُ الْخَضِرُ فَإِنْ اتَّبَعْتَنِي فَلَا تَسْأَلْنِي عَنْ شَيْئٍ حَتَّی أُحْدِثَ لَکَ مِنْهُ ذِکْرًا فَانْطَلَقَا يَمْشِيَانِ عَلَی سَاحِلِ الْبَحْرِ فَمَرَّتْ سَفِينَةٌ فَکَلَّمُوهُمْ أَنْ يَحْمِلُوهُمْ فَعَرَفُوا الْخَضِرَ فَحَمَلُوهُمْ بِغَيْرِ نَوْلٍ فَلَمَّا رَکِبَا فِي السَّفِينَةِ لَمْ يَفْجَأْ إِلَّا وَالْخَضِرُ قَدْ قَلَعَ لَوْحًا مِنْ أَلْوَاحِ السَّفِينَةِ بِالْقَدُومِ فَقَالَ لَهُ مُوسَی قَوْمٌ قَدْ حَمَلُونَا بِغَيْرِ نَوْلٍ عَمَدْتَ إِلَی سَفِينَتِهِمْ فَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِي صَبْرًا قَالَ لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلَا تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا قَالَ وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَکَانَتْ الْأُولَی مِنْ مُوسَی نِسْيَانًا قَالَ وَجَائَ عُصْفُورٌ فَوَقَعَ عَلَی حَرْفِ السَّفِينَةِ فَنَقَرَ فِي الْبَحْرِ نَقْرَةً فَقَالَ لَهُ الْخَضِرُ مَا عِلْمِي وَعِلْمُکَ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ إِلَّا مِثْلُ مَا نَقَصَ هَذَا الْعُصْفُورُ مِنْ هَذَا الْبَحْرِ ثُمَّ خَرَجَا مِنْ السَّفِينَةِ فَبَيْنَا هُمَا يَمْشِيَانِ عَلَی السَّاحِلِ إِذْ أَبْصَرَ الْخَضِرُ غُلَامًا يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ فَأَخَذَ الْخَضِرُ رَأْسَهُ بِيَدِهِ فَاقْتَلَعَهُ بِيَدِهِ فَقَتَلَهُ فَقَالَ لَهُ مُوسَی أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَاکِيَةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُکْرًا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَکَ إِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِي صَبْرًا قَالَ وَهَذِهِ أَشَدُّ مِنْ الْأُولَی قَالَ إِنْ سَأَلْتُکَ عَنْ شَيْئٍ بَعْدَهَا فَلَا تُصَاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْرًا فَانْطَلَقَا حَتَّی إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ قَالَ مَائِلٌ فَقَامَ الْخَضِرُ فَأَقَامَهُ بِيَدِهِ فَقَالَ مُوسَی قَوْمٌ أَتَيْنَاهُمْ فَلَمْ يُطْعِمُونَا وَلَمْ يُضَيِّفُونَا لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا قَالَ هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِکَ إِلَی قَوْلِهِ ذَلِکَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدِدْنَا أَنَّ مُوسَی کَانَ صَبَرَ حَتَّی يَقُصَّ اللَّهُ عَلَيْنَا مِنْ خَبَرِهِمَا قَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ فَکَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَقْرَأُ وَکَانَ أَمَامَهُمْ مَلِکٌ يَأْخُذُ کُلَّ سَفِينَةٍ صَالِحَةٍ غَصْبًا وَکَانَ يَقْرَأُ وَأَمَّا الْغُلَامُ فَکَانَ کَافِرًا وَکَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ

حمیدی، سفیان، عمرو بن دینار، سعید بن جبیر سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے کہا نوف بکالی کہتا ہے کہ خضر سے ملاقات کرنے والے موسیٰ بنی اسرائیل والے موسیٰ نہیں تھے ابن عباس کہتے ہیں کہ وہ اللہ کا دشمن جھوٹ کہتا ہے مجھ سے ابی بن کعب نے بیان کیا کہ میں نے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ موسیٰ جو بنی اسرئیل کے نبی تھے ان سے پوچھا گیا کہ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ بڑا عالم کون ہے؟ تو حضرت موسیٰ نے جواب دیا کہ میں ہوں اللہ کو یہ بات ناگوار ہوئی اور اس نے عتاب فرمایا ان کو یہ کہنا چاہئے تھا کہ اللہ خوب جانتا ہے پھر اللہ نے ان کی طرف وحی بھیجی اور فرمایا کہ ہمارا ایک بندہ دو سمندروں کے سنگم پر ہے تجھ سے زیادہ علم رکھتا ہے چنانچہ موسیٰ نے عرض کیا کہ اے مولا! میں اس کے پاس کس طرح پہنچوں؟ فرمایا ایک مچھلی اپنی زنبیل میں رکھ لو جہاں یہ مچھلی گم ہوجائے سمجھ لو کہ وہ بندہ وہیں ہے حضرت موسیٰ نے مچھلی تھیلی میں رکھی اور چل دیئے آپ کے ساتھ ایک جوان یوشع بن نون بھی تھا جب دریا کے کناے پہنچے تو ایک پتھر سے سر لگا کر سو گئے مچھلی زنبیل میں پھڑکی اور تڑپ کر دریا میں چلی گئی حضرت موسیٰ سو کر اٹھے تو ساتھی نے بھی آپ کو نہیں بتایا اور آگے بڑھ گئے مچھلی جو دریا میں گئی تھی اللہ تعالیٰ نے اس جگہ سے دریا کے پانی کو روک دیا اور ایک نالی سی بنا دی غرض حضرت موسیٰ اپنے ساتھی کے ساتھ ایک دن رات چلتے رہے دوسرے دن حضرت موسیٰ نے یوشع سے کہا کہ مجھے تکان معلوم ہوتی ہے ناشتہ تو لاؤ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تکان اسی جگہ سے معلوم ہونے لگی تھی جہاں مچھلی گم ہوئی تھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہا کہ جو حد اللہ نے بتائی ہے وہاں تک تکان نہیں ہوئی اس وقت یوشع کو یاد آیا اور اس نے کہا کہ اس پتھر کے پاس مچھلی گم ہوگئی مگر مجھے شیطان نے بھلا دیا کہ آپ سے ذکر کرتا وہ تو عجیب طرح سے دریا میں گئی اور اپنا راستہ بنا لیا اور وہ نشان بنایا حضرت موسیٰ اور یوشع کو بہت تعجب خیز معلوم ہوا چنانچہ دونوں اسی جگہ نشان قدم کو دیکھتے ہوئے واپس ہوئے اور جب موسیٰ پتھر کے پاس پہنچے تو آپ نے دیکھا کہ ایک شخص کپڑے میں لپٹے ہوئے کھڑے ہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کو سلام کیا خضر نے کہا اس سر زمین میں سلام کہاں سے آیا؟ حضرت موسیٰ نے فرمایا میں موسیٰ ہوں، انہوں نے پوچھا کیا بنی اسرائیل کے نبی موسیٰ ہو؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ہاں! میں موسیٰ بنی اسرائیل کا نبی ہوں اور تمہارے پاس اس لئے آیا ہوں تاکہ آپ مجھے اپنا علم سکھا دیں حضرت خضر نے کہا تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے حضرت موسیٰ نے فرمایا اللہ نے چاہا تو آپ مجھ کو صابر پائیں گے میں کسی بات میں آپ کے خلاف نہیں کروں گا حضرت خضر نے فرمایا اگر تم میرے ہمراہ رہنا چاہتے ہو تو دیکھو میں کوئی بھی کام کروں گا مگر آپ اس وقت تک پوچھئے گا نہیں جب تک میں خود نہ بتاؤں اس کے بعد حضرت موسیٰ و خضر دریا کے کنارے کنارے روانہ ہوئے ایک کشتی نظر آئی حضرت خضر نے ملاحوں سے کہا کہ ہم کو کشتی میں بٹھا لو وہ حضرت خضر کو پہچان گیا اور کشتی میں بٹھا لیا اور کوئی معاوضہ نہیں لیا جب حضرت موسیٰ و خضر کشتی میں بیٹھ گئے تو حضرت خضر نے کلہاڑی سے کشتی کے ایک تختہ کو کاٹ ڈالا حضرت موسیٰ نے اس کیفیت کو دیکھ کر کہا کہ ان بے چاروں نے تو ہم کو مفت میں بٹھایا ہے اور آپ نے ان کی کشتی کو توڑ ڈالا ہے سب لوگ ڈوب جائیں گے یہ تو بہت برا کام ہوا ہے حضرت خضر نے فرمایا دیکھو! میں نے تم سے کہا تھا کہ میں جو بھی کروں صبر کرنا مگر تم صبر نہیں کر سکے حضرت موسیٰ نے فرمایا اچھا اس دفعہ معافی دے دو آئندہ ایسا نہیں ہوگا میں بھول گیا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ یہ بات تھی جو موسیٰ علیہ السلام سے بھول کہ ہوئی اس کے بعد ایک چڑیا کشتی کے کنارے پر آکر بیٹھ گئی اور اپنی چونچ سے پانی پیا حضرت خضر نے کہا کہ اے موسیٰ ! ہمارا اور تمہارا علم اللہ تعالیٰ کے سامنے اتنا ہی ہے جتنا اس پرندے نے چونچ میں پانی لیا ہے اس کے بعد کشتی سے نیچے اتر گئے اور اس دریاد کے کنارے کنارے چلنے لگے راستہ میں حضرت خضرنے ایک بچہ کو جو کہ دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا پکڑ کر اس کا سر جسم سے علیحدہ کردیا حضرت موسیٰ نے کہا کہ آپ نے بلاوجہ ایک بچہ کو اس طرح مار ڈالا یہ تو کوئی اچھا کام نہیں کیا حضرت خضر نے کہا میں تو پہلے ہی سے کہتا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے اس حدیث کے ایک راوی سفیان کہتے ہیں کہ یہ کام پہلے کام سے بھی زیادہ سخت تھا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ اچھا اب میں کوئی سوال نہیں کروں گا اور اگر کروں تو مجھے اپنے ساتھ مت رکھنا بے شک آپ نے کافی صبر کیا ہے اس کے بعد دونوں حضرات ایک گاؤں میں چلتے ہوئے پہنچے۔ گاؤں والوں سے کھانے کو مانگا مگر گاؤں والوں نے کچھ کھلانے سے انکار کردیا گاؤں میں حضرت خضر کو ایک دیوار نظر آئی جو عنقریب گرنے والی اور جھکی ہوئی تھی حضرت خضر نے اسے اپنے ہاتھ سے سیدھا کردیا حضرت موسیٰ نے کہا کہ اول تو گاؤں والوں نے ہماری مہمانی نہیں کی پھر آپ نے ان کے ساتھ یہ بھلائی کہ ان کی دیوار کو سیدھا کردیا کچھ مزدوری لینا چاہئے تھی حضرت خضر نے کہا کہ یہ میرے اور تمہارئے درمیان جدائیگی کا وقت ہے اللہ تعالیٰ کے قول (ذٰلِكَ تَاْوِيْلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَّلَيْهِ صَبْرًا الخ۔ ) 18۔ الکہف : 82) تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے یہ اچھا لگتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام خضر کے کاموں پر صبر کرتے اور اس طرح اللہ تعالیٰ ان کی کچھ اور باتوں کی بھی خبر دیتا سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما اس آیت میں ( وَکَانَ أَمَامَهُمْ مَلِکٌ يَأْخُذُ کُلَّ سَفِينَةٍ الخ) کی جگہ امامھم اور سفینتہ کے آگے صالحتہ پڑھتے تھے اور اس آیت کو (وَأَمَّا الْغُلَامُ فَکَانَ الخ) اس طرح پڑھتے تھے (وَأَمَّا الْغُلَامُ فَکَانَ کَافِرًا وَکَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ الخ۔)

Narrated Said bin Jubair:
I said to Ibn 'Abbas, "Nauf Al-Bikali claims that Moses, the companion of Al-Khadir was not the Moses of the children of Israel" Ibn 'Abbas said, "The enemy of Allah (Nauf) told a lie." Narrated Ubai bin Ka'b that he heard Allah's Apostle saying, "Moses got up to deliver a speech before the children of Israel and he was asked, Who is the most learned person among the people?' Moses replied, 'I (am the most learned).' Allah admonished him for he did not ascribe knowledge to Allah alone. So Allah revealed to him: 'At the junction of the two seas there is a slave of Ours who is more learned than you.' Moses asked, 'O my Lord, how can I meet him?' Allah said, 'Take a fish and put it in a basket (and set out), and where you, will lose the fish, you will find him.' So Moses (took a fish and put it in a basket and) set out, along with his boy-servant Yusha' bin Nun, till they reached a rock (on which) they both lay their heads and slept. The fish moved vigorously in the basket and got out of it and fell into the sea and there it took its way through the sea (straight) as in a tunnel). (18.61) Allah stopped the current of water on both sides of the way created by the fish, and so that way was like a tunnel. When Moses got up, his companion forgot to tell him about the fish, and so they carried on their journey during the rest of the day and the whole night.
The next morning Moses asked his boy-servant 'Bring us our early meal; no doubt, we have suffered much fatigue in this journey of ours.' (18.62) Moses did not get tired till he had passed the place which Allah had ordered him to seek after. His boy-servant then said to him,' 'Do you remember when we be-took ourselves to the rock I indeed forgot the fish, none but Satan made me forget to remember it. It took its course into the sea in a marvelous way.' (18.63)
There was a tunnel for the fish and for Moses and his boy-servant there was astonishment. Moses said, 'That is what we have been seeking'. So they went back retracing their footsteps. (18.64) They both returned, retracing their steps till they reached the rock. Behold ! There they found a man covered with a garment. Moses greeted him. Al-Khadir said astonishingly. 'Is there such a greeting in your land?' Moses said, 'I am Moses.' He said, 'Are you the Moses of the children of Israel?' Moses said, 'I have come to you so that you may teach me of what you have been taught.
Al-Khadir said, 'You will not be able to have patience with me. (18.66) O Moses! I have some of Allah's knowledge which He has bestowed upon me but you do not know it; and you too, have some of Allah's knowledge which He has bestowed upon you, but I do not know it." Moses said, "Allah willing, you will find me patient, and I will not disobey you in anything.' (18.6) Al-Khadir said to him. 'If you then follow me, do not ask me about anything until I myself speak to you concerning it.' (18.70), After that both of them proceeded along the sea coast, till a boat passed by and they requested the crew to let them go on board. The crew recognized Al-Khadir and allowed them to get on board free of charge. When they got on board suddenly Moses saw that Al-Khadir had pulled out one of the planks of the boat with an adze. Moses said to him.' These people gave us a free lift, yet you have scuttled their boat so as to drown its people! Truly, you have done a dreadful thing.' (18.71)
Al-Khadir said, 'Didn't I say that you can have no patience with me ?' (18.72) Moses said, 'Call me not to account for what I forgot and be not hard upon me for my affair (with you.)" (18.73)
Allah's Apostle said, "The first excuse given by Moses, was that he had forgotten. Then a sparrow came and sat over the edge of the boat and dipped its beak once in the sea. Al-Khadir said to Moses, 'My knowledge and your knowledge, compared to Allah's knowledge is like what this sparrow has taken out of the sea.' Then they both got out of the boat, and while they were walking on the sea shore, Al-Khadir saw a boy playing with other boys. Al-Khadir got hold of the head of that boy and pulled it out with his hands and killed him. Moses said, 'Have you killed an innocent soul who has killed nobody! Truly, you have done an illegal thing.' (18.74) He said, "Didn't I tell you that you can have no patience with me?' (18.75) (The sub narrator said, the second blame was stronger than the first one.) Moses said, 'If I ask you about anything after this, keep me not in your company, you have received an excuse from me.' (18.76)
Then they both proceeded until they came to the inhabitants of a town. They asked them food but they refused to entertain them. (In that town) they found there a wall on the point of falling down. (18.77) Al-Khadir set it up straight with his own hands. Moses said, 'These are people to whom we came, but they neither fed us nor received us as guests. If you had wished, you could surely have exacted some recompense for it. Al-Khadir said, 'This is the parting between me and you ..that is the interpretation of (those things) over which you were unable to hold patience.' (18.78-82)
Allah's Apostle said, "We wished that Moses could have been more patient so that Allah might have described to us more about their story."

یہ حدیث شیئر کریں