صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ تفاسیر کا بیان ۔ حدیث 1920

اللہ تعالیٰ کا قول کہ جب وہ مجمع البحرین پر پہنچے تو اپنی مچھلی بھول گئے اور مچھلی نے دریا میں اپنے چلنے کا نشان کر دیا سربا چلنے کا نشانیسرب کے معنی راستہ کے آتے ہیں سا رب بالنھار اسی سے نکلا ہے یعنی دن میں راستے چلنے والا۔

راوی: ابراہیم بن موسیٰ , ہشام بن یوسف , ابن جریج , یعلی بن مسلم , عمرو بن دینار , سعید بن جبیر

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَی أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَهُمْ قَالَ أَخْبَرَنِي يَعْلَی بْنُ مُسْلِمٍ وَعَمْرُو بْنُ دِينَارٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ يَزِيدُ أَحَدُهُمَا عَلَی صَاحِبِهِ وَغَيْرُهُمَا قَدْ سَمِعْتُهُ يُحَدِّثُهُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ إِنَّا لَعِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي بَيْتِهِ إِذْ قَالَ سَلُونِي قُلْتُ أَيْ أَبَا عَبَّاسٍ جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَائَکَ بِالْکُوفَةِ رَجُلٌ قَاصٌّ يُقَالُ لَهُ نَوْفٌ يَزْعُمُ أَنَّهُ لَيْسَ بِمُوسَی بَنِي إِسْرَائِيلَ أَمَّا عَمْرٌو فَقَالَ لِي قَالَ قَدْ کَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ وَأَمَّا يَعْلَی فَقَالَ لِي قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ حَدَّثَنِي أُبَيُّ بْنُ کَعْبٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُوسَی رَسُولُ اللَّهِ عَلَيْهِ السَّلَام قَالَ ذَکَّرَ النَّاسَ يَوْمًا حَتَّی إِذَا فَاضَتْ الْعُيُونُ وَرَقَّتْ الْقُلُوبُ وَلَّی فَأَدْرَکَهُ رَجُلٌ فَقَالَ أَيْ رَسُولَ اللَّهِ هَلْ فِي الْأَرْضِ أَحَدٌ أَعْلَمُ مِنْکَ قَالَ لَا فَعَتَبَ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَی اللَّهِ قِيلَ بَلَی قَالَ أَيْ رَبِّ فَأَيْنَ قَالَ بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ قَالَ أَيْ رَبِّ اجْعَلْ لِي عَلَمًا أَعْلَمُ ذَلِکَ بِهِ فَقَالَ لِي عَمْرٌو قَالَ حَيْثُ يُفَارِقُکَ الْحُوتُ وَقَالَ لِي يَعْلَی قَالَ خُذْ نُونًا مَيِّتًا حَيْثُ يُنْفَخُ فِيهِ الرُّوحُ فَأَخَذَ حُوتًا فَجَعَلَهُ فِي مِکْتَلٍ فَقَالَ لِفَتَاهُ لَا أُکَلِّفُکَ إِلَّا أَنْ تُخْبِرَنِي بِحَيْثُ يُفَارِقُکَ الْحُوتُ قَالَ مَا کَلَّفْتَ کَثِيرًا فَذَلِکَ قَوْلُهُ جَلَّ ذِکْرُهُ وَإِذْ قَالَ مُوسَی لِفَتَاهُ يُوشَعَ بْنِ نُونٍ لَيْسَتْ عَنْ سَعِيدٍ قَالَ فَبَيْنَمَا هُوَ فِي ظِلِّ صَخْرَةٍ فِي مَکَانٍ ثَرْيَانَ إِذْ تَضَرَّبَ الْحُوتُ وَمُوسَی نَائِمٌ فَقَالَ فَتَاهُ لَا أُوقِظُهُ حَتَّی إِذَا اسْتَيْقَظَ نَسِيَ أَنْ يُخْبِرَهُ وَتَضَرَّبَ الْحُوتُ حَتَّی دَخَلَ الْبَحْرَ فَأَمْسَکَ اللَّهُ عَنْهُ جِرْيَةَ الْبَحْرِ حَتَّی کَأَنَّ أَثَرَهُ فِي حَجَرٍ قَالَ لِي عَمْرٌو هَکَذَا کَأَنَّ أَثَرَهُ فِي حَجَرٍ وَحَلَّقَ بَيْنَ إِبْهَامَيْهِ وَاللَّتَيْنِ تَلِيَانِهِمَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا قَالَ قَدْ قَطَعَ اللَّهُ عَنْکَ النَّصَبَ لَيْسَتْ هَذِهِ عَنْ سَعِيدٍ أَخْبَرَهُ فَرَجَعَا فَوَجَدَا خَضِرًا قَالَ لِي عُثْمَانُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ عَلَی طِنْفِسَةٍ خَضْرَائَ عَلَی کَبِدِ الْبَحْرِ قَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ مُسَجًّی بِثَوْبِهِ قَدْ جَعَلَ طَرَفَهُ تَحْتَ رِجْلَيْهِ وَطَرَفَهُ تَحْتَ رَأْسِهِ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ مُوسَی فَکَشَفَ عَنْ وَجْهِهِ وَقَالَ هَلْ بِأَرْضِي مِنْ سَلَامٍ مَنْ أَنْتَ قَالَ أَنَا مُوسَی قَالَ مُوسَی بَنِي إِسْرَائِيلَ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَمَا شَأْنُکَ قَالَ جِئْتُ لِتُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رَشَدًا قَالَ أَمَا يَکْفِيکَ أَنَّ التَّوْرَاةَ بِيَدَيْکَ وَأَنَّ الْوَحْيَ يَأْتِيکَ يَا مُوسَی إِنَّ لِي عِلْمًا لَا يَنْبَغِي لَکَ أَنْ تَعْلَمَهُ وَإِنَّ لَکَ عِلْمًا لَا يَنْبَغِي لِي أَنْ أَعْلَمَهُ فَأَخَذَ طَائِرٌ بِمِنْقَارِهِ مِنْ الْبَحْرِ وَقَالَ وَاللَّهِ مَا عِلْمِي وَمَا عِلْمُکَ فِي جَنْبِ عِلْمِ اللَّهِ إِلَّا کَمَا أَخَذَ هَذَا الطَّائِرُ بِمِنْقَارِهِ مِنْ الْبَحْرِ حَتَّی إِذَا رَکِبَا فِي السَّفِينَةِ وَجَدَا مَعَابِرَ صِغَارًا تَحْمِلُ أَهْلَ هَذَا السَّاحِلِ إِلَی أَهْلِ هَذَا السَّاحِلِ الْآخَرِ عَرَفُوهُ فَقَالُوا عَبْدُ اللَّهِ الصَّالِحُ قَالَ قُلْنَا لِسَعِيدٍ خَضِرٌ قَالَ نَعَمْ لَا نَحْمِلُهُ بِأَجْرٍ فَخَرَقَهَا وَوَتَدَ فِيهَا وَتِدًا قَالَ مُوسَی أَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا قَالَ مُجَاهِدٌ مُنْکَرًا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِي صَبْرًا کَانَتْ الْأُولَی نِسْيَانًا وَالْوُسْطَی شَرْطًا وَالثَّالِثَةُ عَمْدًا قَالَ لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلَا تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا لَقِيَا غُلَامًا فَقَتَلَهُ قَالَ يَعْلَی قَالَ سَعِيدٌ وَجَدَ غِلْمَانًا يَلْعَبُونَ فَأَخَذَ غُلَامًا کَافِرًا ظَرِيفًا فَأَضْجَعَهُ ثُمَّ ذَبَحَهُ بِالسِّکِّينِ قَالَ أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَکِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَمْ تَعْمَلْ بِالْحِنْثِ وَکَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ قَرَأَهَا زَکِيَّةً زَاکِيَةً مُسْلِمَةً کَقَوْلِکَ غُلَامًا زَکِيًّا فَانْطَلَقَا فَوَجَدَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ فَأَقَامَهُ قَالَ سَعِيدٌ بِيَدِهِ هَکَذَا وَرَفَعَ يَدَهُ فَاسْتَقَامَ قَالَ يَعْلَی حَسِبْتُ أَنَّ سَعِيدًا قَالَ فَمَسَحَهُ بِيَدِهِ فَاسْتَقَامَ لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا قَالَ سَعِيدٌ أَجْرًا نَأْکُلُهُ وَکَانَ وَرَائَهُمْ وَکَانَ أَمَامَهُمْ قَرَأَهَا ابْنُ عَبَّاسٍ أَمَامَهُمْ مَلِکٌ يَزْعُمُونَ عَنْ غَيْرِ سَعِيدٍ أَنَّهُ هُدَدُ بْنُ بُدَدَ وَالْغُلَامُ الْمَقْتُولُ اسْمُهُ يَزْعُمُونَ جَيْسُورٌ مَلِکٌ يَأْخُذُ کُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا فَأَرَدْتُ إِذَا هِيَ مَرَّتْ بِهِ أَنْ يَدَعَهَا لِعَيْبِهَا فَإِذَا جَاوَزُوا أَصْلَحُوهَا فَانْتَفَعُوا بِهَا وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ سَدُّوهَا بِقَارُورَةٍ وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ بِالْقَارِ کَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ وَکَانَ کَافِرًا فَخَشِينَا أَنْ يُرْهِقَهُمَا طُغْيَانًا وَکُفْرًا أَنْ يَحْمِلَهُمَا حُبُّهُ عَلَی أَنْ يُتَابِعَاهُ عَلَی دِينِهِ فَأَرَدْنَا أَنْ يُبَدِّلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِنْهُ زَکَاةً لِقَوْلِهِ أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَکِيَّةً وَأَقْرَبَ رُحْمًا هُمَا بِهِ أَرْحَمُ مِنْهُمَا بِالْأَوَّلِ الَّذِي قَتَلَ خَضِرٌ وَزَعَمَ غَيْرُ سَعِيدٍ أَنَّهُمَا أُبْدِلَا جَارِيَةً وَأَمَّا دَاوُدُ بْنُ أَبِي عَاصِمٍ فَقَالَ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ إِنَّهَا جَارِيَةٌ

ابراہیم بن موسی، ہشام بن یوسف، ابن جریج، یعلی بن مسلم، عمرو بن دینار، سعید بن جبیر سے روایت کرتے ہیں کہ ہم ابن عباس کے پاس ان کے گھر میں بیٹھے تھے میں نے ان سے ان کی خواہش پر پوچھا کہ اللہ مجھے آپ پر قربان کرے، کوفہ کے ایک واعظ نوف کا بیان ہے کہ موسیٰ بنی اسرائیل کے نبی اور تھے اور جو خضر کے ساتھ رہے وہ اور تھے کیا یہ درست ہے؟ ابن عباس نے کہا اس اللہ کے دشمن نے جھوٹ بولا، ابن جریج کا بیان ہے کہ یلی بن مسلم نے مجھے جو حدیث بیان کی اس میں یہ تھا کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے سعید سے یہ کہا تھا کہ ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے کہا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ایک دن موسیٰ علیہ السلام نے وعظ کہا لوگوں کو رقت پیدا ہوگئی اور بہت روئے ایک شخص نے عرض کیا کہ اے موسیٰ اللہ کے پیغمبر! کیا اس زمین میں آپ سے بھی زیادہ جاننے والا کوئی عالم موجود ہے؟ حضرت موسیٰ نے فرمایا نہیں، اللہ تعالیٰ کو یہ بات ناگوار ہوئی کیونکہ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ اللہ ہی زیادہ جانتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے موسیٰ ! ہمارے بعض بندے تم سے بھی زیادہ علم والے ہیں حضرت موسیٰ نے عرض کیا کہ مولیٰ مجھے ان کا پتہ بتا تاکہ میں ان سے ملوں اور علم حاصل کروں ابن جریج کہتے ہیں کہ عمرو بن دینار نے مجھ سے اس طرح کہا کہ اللہ کی طرف سے ارشاد ہوا کہ اس کا پتہ یہ ہے کہ جہاں تمہاری مچھلی گم ہوجائے گی خضر تم کو وہیں ملیں گے یعلی نے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس طرح فرمایا تھا کہ ایک مری ہوئی مچھلی لے لو جہاں وہ زندہ ہوجائے گی بس اسی جگہ وہ شخص تم کو ملے گا حضرت موسیٰ نے ایک مچھلی تھیلے میں ڈالی اور اپنے خادم یوشع کو ساتھ لیا اور اس سے کہا کہ تم کو صرف اتنی تکلیف دیتا ہوں کہ جہاں مچھلی گم ہوجائے مجھے بتا دینا یوشع نے عرض کیا کہ یہ کیا بڑی بات ہے سعید کی روایت میں یوشع بن نون کا نام نہیں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب حضرت موسیٰ اپنے ساتھی کے ساتھ ایک پتھر کی چٹان کے پاس پہنچے دریا کے کنارے تو موسیٰ سو گئے مچھلی تڑپ کر دریا میں چلی گئی نوجوان ساتھی نے خیال کیا کہ جگانا نہیں چاہئے جب اٹھیں گے تو کہہ دوں گا مگر ان کے اٹھنے کے بعد بھول گیا اللہ نے مچھلی کے جانے کی وجہ سے پانی کو روک دیا اور پانی میں ایک خاص نشان سرنگ کی طرح بن گیا روای کہتے ہیں کہ عمرو بن دینار نے یہ کہا تھا کہ وہ مچھلی پانی میں ایک سوراخ بنا کر چھوڑتی چلی گئی اور پھر عمرو نے اپنے دونوں انگوٹھوں اور پاس والی انگلیوں سے حلقہ بنا کر بتایا اس کے بعد یہ دونوں حضرات آگے چلے گئے اور کچھ دور جا کر حضرت موسیٰ نے فرمایا کہ مجھے سفر کی تکان معلوم ہوتی ہے یوشع نے کہا کہ اللہ نے آپ کی تھکن کو دور کردیا اس کے بعد یوشع نے کہا کہ مچھلی تو فلاں جگہ گم ہوگئی اور میں آپ سے کہنا بھول گیا چنانچہ حضرت موسیٰ لوٹ کر چٹان کے قریب آئے تو دیکھا کہ خضر کھڑے ہیں ابن جریج نے کہا کہ عثمان بن ابی سلیمان کا بیان ہے کہ آپ نے خضر کو دریا میں سبز بستر پر بیٹھے دیکھا سعید کہتے ہیں کہ کپڑا اوڑھے ہوئے تھے اور کپڑے کا ایک کنارا پیروں تلے دبایا ہوا تھا اور دوسرا کنارہ سر پر تھا حضرت موسیٰ نے سلام کیا خضر نے کہا کہ میرے ملک میں سلام کا طریقہ نہیں ہے تم کون ہو؟ حضرت موسیٰ نے کہا میں موسیٰ ہوں خضر نے کہا کیا بنی اسرائیل کے موسیٰ ہو؟ حضرت موسیٰ نے کہا جی ہاں! خضر نے کہا پھر یہاں کس کام کے لئے آئے ہو؟ حضرت موسیٰ نے کہا اس لئے کہ آپ مجھے اپنا علم سکھائیں خضر نے کہا کیا تورات اور وحی آپ کو کافی نہیں؟ اے موسیٰ ! میرا علم تم نہیں سیکھ سکتے اور تمہارا علم میں نہیں سیکھ سکتا خضر یہ کہہ رہے تھے کہ ایک چڑیا نے دریا سے ایک چونچ پانی لیا خضر نے کہا اے موسیٰ ! ہمارا اور تمہارا علم اللہ کے سامنے ایسا ہے جیسے وہ پانی جو اس پرندہ نے چونچ میں بھرا پھر وہ ایک چھوٹی سی ناؤ میں سوار ہوئے جو لوگوں کو ادھر سے ادھر لے جاتی تھی کشتی والوں نے ان کو پہچان لیا اور بلا اجرت کشتی میں بٹھا لیا خضر نے کشتی کے ایک تختہ کو توڑ دیا حضرت موسیٰ نے کہا کہ یہ تو تم نے بہت برا کیا اس سے تو کشتی والے ڈوب جائیں گے خضر نے کہا دیکھو میں نے تم سے پہلے ہی کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہ کر سکو گے درحقیقت یہ پہلا اعتراض موسیٰ علیہ السلام نے بھولے سے کیا تھا اور دوسری بات خود حضرت موسیٰ نے شرط لگائی کہ اگر پھر ایسا ہوا تو مجھے ساتھ نہ رکھنا اور تیسرا اعتراض عمدا کیا حضرت موسیٰ نے کہا میں بھول گیا ہوں بھول پر معاف کرنا چاہئے اس کے بعد آگے بڑھے ایک بچہ ملا خضر نے اسے مار ڈالا اور گلا کاٹ دیا حضرت موسیٰ نے کہا یہ تو تم نے بلاوجہ ایک خون کر ڈالا بے گناہ کو مار ڈالا ابن عباس اس آیت میں نفسا زکیۃ زاکیۃ دونوں طرح پڑھتے ہیں زاکیۃ کے معنی اچھا نیک مسلمان جیسے کہتے ہیں غلام زکیا اس کے بعد دونوں ایک بستی میں پہنچے ایک دیوار جو گرنے والی تھی اور ٹیڑھی ہو رہی ہے خضر نے اس کو ہاتھ لگا کر سیدھا کردیا سعید نے ہاتھ کا اشارہ کرکے بتایا کہ دیوار کو اس طرح سیدھا کیا تھا یعلی کہتے ہیں کہ میں خیال کرتا ہوں کہ سعید نے اسی طرح کہا تھا کہ خضر نے دیوار پر ہاتھ پھیرا تو وہ سیدھی ہوگئی حضرت موسیٰ نے اعتراض کیا اور کہا کہ اگر تم چاہتے تو اس کی مزدوری لے سکتے تھے اور اس میں کھانا پینا ہوسکتا تھا اور یہ کہ (وکان وراءھم) کے معنی امامھم کے ہیں ابن عباس نے اسی طرح پڑھا ہے ابن جریج نے کہا کہ سعید کے سوا دوسرے راویوں نے بادشاہ بد دین و بد بیان کیا ہے اور وہ لڑکا جس کو خضر نے مار ڈالا تھا جیسور تھا کشتی توڑنے کی وجہ خضر نے یہ بتائی کہ وہ بادشاہ جو کہ دریا سے پار تھاظالم تھا اور بیگار میں کشتیاں پکڑتا تھا اسے بیکار سمجھ کر چھوڑ دے گا کشتی والے اسے ٹھیک کرکے کام چلائیں گے بعض نے کہا کہ سیسہ گلا کر کشتی جوڑی اور بعض نے کہا کہ لاکھ اور روغن سے جوڑا وہ لڑکا کافر تھا اور اس کے ماں باپ مومن تھے مجھے یہ خیال ہوا کہ اس کی محبت والدین کو تباہ نہ کردے لہذا میں نے اس کو اس لئے مار ڈالا تھا کہ اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس کے ماں باپ کو نیک اولاد عنایت فرما دے جو اس سے ہر حالت میں نیک اور اچھا ہو اور بعض نے کہا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ لڑکے کے بدلے میں اللہ تعالیٰ کوئی نیک لڑکی عنایت کردے چنانچہ داؤد بن عاصم کہتے ہیں کہ لڑکی ہی مراد ہے۔

Narrated Ibn Juraij:
Ya'la bin Muslim and 'Amr bin Dinar and some others narrated the narration of Said bin Jubair.
Narrated Said: While we were at the house of Ibn 'Abbas, Ibn 'Abbas said, "Ask me (any question)" I said, "O Abu Abbas! May Allah let me be sacrificed for you ! There is a man at Kufa who is a story-teller called Nauf; who claims that he (Al-Khadir's companion) is not Moses of Bani Israel." As for 'Amr, he said to me, "Ibn 'Abbas said, "(Nauf) the enemy of Allah told a lie." But Ya'la said to me, "Ibn 'Abbas said, Ubai bin Ka'b said, Allah's Apostle said, 'Once Moses, Allah's Apostle, preached to the people till their eyes shed tears and their hearts became tender, whereupon he finished his sermon. Then a man came to Moses and asked, 'O Allah's Apostle! Is there anyone on the earth who is more learned than you?' Moses replied, 'No.' So Allah admonished him (Moses), for he did not ascribe all knowledge to Allah. It was said, (on behalf of Allah), 'Yes, (there is a slave of ours who knows more than you ).' Moses said, 'O my Lord! Where is he?' Allah said, 'At the junction of the two seas.' Moses said, 'O my Lord ! Tell I me of a sign whereby I will recognize the place.' " 'Amr said to me, Allah said, "That place will be where the fish will leave you." Ya'la said to me, "Allah said (to Moses), 'Take a dead fish (and your goal will be) the place where it will become alive.' " So Moses took a fish and put it in a basket and said to his boy-servant "I don't want to trouble you, except that you should inform me as soon as this fish leaves you." He said (to Moses)." You have not demanded too much." And that is as mentioned by Allah:
'And (remember) when Moses said to his attendant …. ' (18.60) Yusha' bin Nun. (Said did not state that). The Prophet said, "While the attendant was in the shade of the rock at a wet place, the fish slipped out (alive) while Moses was sleeping. His attend an said (to himself), "I will not wake him, but when he woke up, he forgot to tell him The fish slipped out and entered the sea. Allah stopped the flow of the sea. where the fish was, so that its trace looked as if it was made on a rock. 'Amr forming a hole with his two thumbs an index fingers, said to me, "Like this, as in its trace was made on a rock." Moses said "We have suffered much fatigue on this journey of ours." (This was not narrate by Said). Then they returned back and found Al-Khadir. 'Uthman bin Abi Sulaiman said to me, (they found him) on a green carpet in the middle of the sea. Al-Khadir was covered with his garment with one end under his feet and the other end under his head. When Moses greeted, he uncovered his face and said astonishingly, 'Is there such a greeting in my land? Who are you?' Moses said, 'I am Moses.' Al-Khadir said, 'Are you the Moses of Bani Israel?' Moses said, 'Yes.' Al-Khadir said, "What do you want?' Moses said, ' I came to you so that you may teach me of the truth which you were taught.' Al-Khadir said, 'Is it not sufficient for you that the Torah is in your hands and the Divine Inspiration comes to you, O Moses? Verily, I have a knowledge that you ought not learn, and you have a knowledge which I ought not learn.' At that time a bird took with its beak (some water) from the sea: Al-Khadir then said, 'By Allah, my knowledge and your knowledge besides Allah's Knowledge is like what this bird has taken with its beak from the sea.' Until, when they went on board the boat (18.71). They found a small boat which used to carry the people from this sea-side to the other sea-side. The crew recognized Al-Khadir and said, 'The pious slave of Allah.' (We said to Said "Was that Khadir?" He said, "Yes.") The boat men said, 'We will not get him on board with fare.' Al-Khadir scuttled the boat and then plugged the hole with a piece o wood. Moses said, 'Have you scuttle it in order to drown these people surely, you have done a dreadful thing. (18.71) (Mujahid said. "Moses said so protestingly.") Al-Khadir said, didn't I say that you can have no patience with me?' (18.72) The first inquiry of Moses was done because of forget fullness, the second caused him to be bound with a stipulation, and the third was done he intentionally. Moses said, 'Call me not to account for what I forgot and be not hard upon me for my affair (with you).' (18.73)
(Then) they found a boy and Al-Khadir killed him. Ya'la- said: Said said 'They found boys playing and Al-Khadir got hold of a handsome infidel boy laid him down and then slew him with knife. Moses said, 'Have you killed a innocent soul who has killed nobody' (18.74) Then they proceeded and found a wall which was on the point of falling down, and Al-Khadir set it up straight Said moved his hand thus and said 'Al-Khadir raised his hand and the wall became straight. Ya'la said, 'I think Said said, 'Al-Khadir touched the wall with his hand and it became straight (Moses said to Al-Khadir), 'If you had wished, you could have taken wages for it. Said said, 'Wages that we might had eaten.' And there was a king in furor (ahead) of them" (18.79) And there was in front of them. Ibn 'Abbas recited: 'In front of them (was) a king.'
It is said on the authority of somebody other than Said that the king was Hudad bin Budad. They say that the boy was called Haisur. 'A king who seized every ship by force. (18.79) So I wished that if that boat passed by him, he would leave it because of its defect and when they have passed they would repair it and get benefit from it. Some people said that they closed that hole with a bottle, and some said with tar. 'His parents were believers, and he (the boy) was a non-believer and we(Khadir) feared lest he would oppress them by obstinate rebellion and disbelief.' (18.80) (i.e. that their love for him would urge them to follow him in his religion, 'so we (Khadir) desired that their Lord should change him for them for one better in righteousness and near to mercy' (18:81). This was in reply to Moses' saying: Have you killed an innocent soul.'? (18.74). 'Near to mercy" means they will be more merciful to him than they were to the former whom Khadir had killed. Other than Sa'id, said that they were compensated with a girl. Dawud bin Abi 'Asim said on the authority of more than one that this next child was a girl.

یہ حدیث شیئر کریں