صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ تفاسیر کا بیان ۔ حدیث 1924

باب (نیو انٹری)

راوی:

سُورَةُ كهيعص قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَسْمِعْ بِهِمْ وَأَبْصِرْ اللَّهُ يَقُولُهُ وَهُمْ الْيَوْمَ لَا يَسْمَعُونَ وَلَا يُبْصِرُونَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ يَعْنِي قَوْلَهُ أَسْمِعْ بِهِمْ وَأَبْصِرْ الْكُفَّارُ يَوْمَئِذٍ أَسْمَعُ شَيْءٍ وَأَبْصَرُهُ لَأَرْجُمَنَّكَ لَأَشْتِمَنَّكَ وَرِئْيًا مَنْظَرًا وَقَالَ أَبُو وَائِلٍ عَلِمَتْ مَرْيَمُ أَنَّ التَّقِيَّ ذُو نُهْيَةٍ حَتَّى قَالَتْ إِنِّي أَعُوذُ بِالرَّحْمَنِ مِنْكَ إِنْ كُنْتَ تَقِيًّا وَقَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا تُزْعِجُهُمْ إِلَى الْمَعَاصِي إِزْعَاجًا وَقَالَ مُجَاهِدٌ إِدًّا عِوَجًا قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وِرْدًا عِطَاشًا أَثَاثًا مَالًا إِدًّا قَوْلًا عَظِيمًا رِكْزًا صَوْتًا غَيًّا خُسْرَانًا وَقَالَ مُجَاهِدٌ فَلْيَمْدُدْ فَلْيَدَعْهُ وَقَالَ غَيْرُهُ بُكِيًّا جَمَاعَةُ بَاكٍ صِلِيًّا صَلِيَ يَصْلَى نَدِيًّا وَالنَّادِي وَاحِدٌ مَجْلِسًا

سورة مریم کی تفسیر!
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ابن عباس کا بیان ہے کہ ”ابصر بھم واسمع“ کہ قیامت کے دن کافر خوب سنتے اور دیکھتے ہوں گے یہ وہ ہوں گے جنہوں نے دنیا میں رسول اکرم اور خدا کی باتوں کو نہ سنا نہ سمجھا‘ بخاری نے یہ بھی خیال ظاہر کیا ہے ”لارجمنک“ کے معنی ہیں کہ میں تجھ پر گالیوں کی بوچھاڑ کر دوں گا ”وربا“ کے معنی ہیں منظرا کے ہیں یعنی دیکھنے میں‘ ابو وائل کہتے ہیں کہ مریم جانتی تھی کہ جو پرہیز گار ہوتا ہے‘ وہی عقلمند ہوتا ہے اسی وجہ سے انہوں نے کہا تھا ”انی اعوذ بالرحمن منک ان کنت تقیا“ سفیان کہتے ہیں کہ ”توزھم“ کے معنی ہیں کہ شیطان ان کو گناہوں پر ابھارتا ہے‘ مجاہد کا بیان ہے کہ ”اوا“ کے معنی ٹیڑھا ‘یعنی غلط بات ‘ ابن عباس کہتے ہیں کہ ”وردا“ کے معنی پیاسے ’اثاثا“ کے معنی مال ”ادا“ بڑی بات ”رکزا“ پست آواز ”غیا“ خسارہ ”بکیا“ باک کی جمع‘ رونے والے ”صلیا“ یصلی کا مصدر ہے‘ معنی ہیں آگ میں تپنا ”ندیا“ مجلس و محفل۔

یہ حدیث شیئر کریں