صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ تفاسیر کا بیان ۔ حدیث 1931

باب (نیو انٹری)

راوی:

سُورَةُ طه قَالَ عِكْرِمَةُ وَالضَّحَّاكُ بِالنَّبَطِيَّةِ أَيْ طَهْ يَا رَجُلُ يُقَالُ كُلُّ مَا لَمْ يَنْطِقْ بِحَرْفٍ أَوْ فِيهِ تَمْتَمَةٌ أَوْ فَأْفَأَةٌ فَهِيَ عُقْدَةٌ وَقَالَ مُجَاهِدٌ أَلْقَى صَنَعَ أَزْرِي ظَهْرِي فَيَسْحَتَكُمْ يُهْلِكَكُمْ الْمُثْلَى تَأْنِيثُ الْأَمْثَلِ يَقُولُ بِدِينِكُمْ يُقَالُ خُذْ الْمُثْلَى خُذْ الْأَمْثَلَ ثُمَّ ائْتُوا صَفًّا يُقَالُ هَلْ أَتَيْتَ الصَّفَّ الْيَوْمَ يَعْنِي الْمُصَلَّى الَّذِي يُصَلَّى فِيهِ فَأَوْجَسَ فِي نَفْسِهِ خَوْفًا فَذَهَبَتْ الْوَاوُ مِنْ خِيفَةً لِكَسْرَةِ الْخَاءِ فِي جُذُوعِ أَيْ عَلَى جُذُوعِ النَّخْلِ خَطْبُكَ بَالُكَ مِسَاسَ مَصْدَرُ مَاسَّهُ مِسَاسًا لَنَنْسِفَنَّهُ لَنَذْرِيَنَّهُ قَاعًا يَعْلُوهُ الْمَاءُ وَالصَّفْصَفُ الْمُسْتَوِي مِنْ الْأَرْضِ وَقَالَ مُجَاهِدٌ أَوْزَارًا أَثْقَالًا مِنْ زِينَةِ الْقَوْمِ وَهِيَ الْحُلِيُّ الَّتِي اسْتَعَارُوا مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ وَهِيَ الْأَثْقَالُ فَقَذَفْتُهَا فَأَلْقَيْتُهَا أَلْقَى صَنَعَ فَنَسِيَ مُوسَى هُمْ يَقُولُونَهُ أَخْطَأَ الرَّبَّ لَا يَرْجِعُ إِلَيْهِمْ قَوْلًا الْعِجْلُ هَمْسًا حِسُّ الْأَقْدَامِ حَشَرْتَنِي أَعْمَى عَنْ حُجَّتِي وَقَدْ كُنْتُ بَصِيرًا فِي الدُّنْيَا قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ بِقَبَسٍ ضَلُّوا الطَّرِيقَ وَكَانُوا شَاتِينَ فَقَالَ إِنْ لَمْ أَجِدْ عَلَيْهَا مَنْ يَهْدِي الطَّرِيقَ آتِكُمْ بِنَارٍ تُوقِدُونَ وَقَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ أَمْثَلُهُمْ أَعْدَلُهُمْ طَرِيقَةً وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ هَضْمًا لَا يُظْلَمُ فَيُهْضَمُ مِنْ حَسَنَاتِهِ عِوَجًا وَادِيًا وَلَا أَمْتًا رَابِيَةً سِيرَتَهَا حَالَتَهَا الْأُولَى النُّهَى التُّقَى ضَنْكًا الشَّقَاءُ هَوَى شَقِيَ بِالْوَادِي الْمُقَدَّسِ الْمُبَارَكِ طُوًى اسْمُ الْوَادِي يَفْرُطُ عُقُوبَةً بِمِلْكِنَا بِأَمْرِنَا مَكَانًا سِوًى مَنْصَفٌ بَيْنَهُمْ يَبَسًا يَابِسًا عَلَى قَدَرٍ مَوْعِدٍ لَا تَنِيَا تَضْعُفَا

سورة طہٰ کی تفسیر!
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ابن زبیر اور ضحاک کہتے ہیں کہ حبشی زبان میں ”طہ“ کا مطلب ہے کہ او مرد یا اے آدمی ”عقدہ“ کے معنی گرہ کے ہیں‘ یعنی جس کی زبان سے صحیح الفاظ نہ نکل سکے ”القی“ اس نے ڈالا ”ازری“ کے معنی میری پیٹھ ”فیسحتکم“ کے معنی ہلاک کر دے گا تم کو ؟ المثلی“ یہ مثل کا مونث ہے معنی ہیں بہتر بات‘ اچھی بات ”ثم ائتو صفا“ صفا بنا کر آؤ یعنی نماز کے وقت صف میں آؤ‘ کھڑے ہو ”فاوجس“ کے معنی سہم گیا ”خیفہ“ اصل میں خوفا تھا واؤ کو یاء سے بدل لیا‘ فی جذوع النخل کھجور کی شاخوں پر یہاں فی علی کے معنی میں ہے خطبک“ تیرا کیا حال ہے‘ تیرا معاملہ کیا ہے ”مساس“ چھونا یہ مصدر ہے ”ننفسنہ اڑادیں گے ہم اس کو بکھیر دیں گے ہم اس کو ”قاعا“ وہ زمین جس کے اوپر پانی آجائے صفصف ہموار زمین کو کہتے ہیں‘ مجاہد کا بیان ہے کہ ”زینة القوم“ سے مراد قوم بنی اسرائیل کی زیبائش اور زار“ کے معنی بوجھ ”نقذفھا“ کے معنی ہیں‘ میں نے اس کو ڈال دیا یا پھینک دیا ”فالقیتھا“ میں نے اسے ڈالدیا“ فنسی“ بھول گیا وہ ”لایرجع الیھم قولا“ یعنی وہ ان کے قول کا جواب بھی نہیں دیتا ”ھمسا“ پاؤں کی آہٹ”حشرتنی اعمیٰ‘ یعنی مجھے اندھا کر کے کیوں اٹھایا‘ دنیا میں تو تجھے روشنی معلوم ہوتی تھی‘ ابن عباس کہتے ہیں کہ ”بقبس“ کے معنی ہیں‘ موسی علیہ السلام راستہ بھول گئے‘ سردی کا زور تھا کہنے لگے اگر کوئی راستہ بتانے والا ملا تو خیر ورنہ تھوڑی سی آگ ہی لے آؤنگا ‘ ابن عیینہ کہتے ہیں کہ ”مثلھم“ سے مراد سمجھدار آدمی ہے‘ ابن عباس کہتے ہیں کہ ”ھضما“ سے مراد ہے کہ اس پر زیادتی نہیں ہو گی اس کا ثواب کم نہ کیا جائے گا”عوجا“ کے معنی کجی ”امتا“ کے معنی بلندی ”سیرت “ حالت ”النھی“ عقل”التقی“ بچنا‘ پرہیزگاری ”ضنکا“ بد بختی“ ”ھوی“”گرا“ ”شقی“ ایذا میں پڑا؟ مقدس“ پاک ”طوی“ وادی”’بملکنا“ اپنے اختیار سے نکالنا سوی‘ ہموار کی جگہ ”یبسا“ خشک ”علی قدر“ اندازہ پر ”موعد“ وقت کے مطابق لانا لاتنیا سستی مت کرو‘ ضعیف مت ہو۔

یہ حدیث شیئر کریں