چرنے والے جانوروں کی زکوة کا بیان
راوی: موسی بن اسمعیل , حماد ، میں نے ثمامہ بن عبداللہ بن انس
حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ قَالَ أَخَذْتُ مِنْ ثُمَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ کِتَابًا زَعَمَ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ کَتَبَهُ لِأَنَسٍ وَعَلَيْهِ خَاتِمُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ بَعَثَهُ مُصَدِّقًا وَکَتَبَهُ لَهُ فَإِذَا فِيهِ هَذِهِ فَرِيضَةُ الصَّدَقَةِ الَّتِي فَرَضَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَی الْمُسْلِمِينَ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهَا نَبِيَّهُ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَنْ سُئِلَهَا مِنْ الْمُسْلِمِينَ عَلَی وَجْهِهَا فَلْيُعْطِهَا وَمَنْ سُئِلَ فَوْقَهَا فَلَا يُعْطِهِ فِيمَا دُونَ خَمْسٍ وَعِشْرِينَ مِنْ الْإِبِلِ الْغَنَمُ فِي کُلِّ خَمْسِ ذَوْدٍ شَاةٌ فَإِذَا بَلَغَتْ خَمْسًا وَعِشْرِينَ فَفِيهَا بِنْتُ مَخَاضٍ إِلَی أَنْ تَبْلُغَ خَمْسًا وَثَلَاثِينَ فَإِنْ لَمْ يَکُنْ فِيهَا بِنْتُ مَخَاضٍ فَابْنُ لَبُونٍ ذَکَرٌ فَإِذَا بَلَغَتْ سِتًّا وَثَلَاثِينَ فَفِيهَا بِنْتُ لَبُونٍ إِلَی خَمْسٍ وَأَرْبَعِينَ فَإِذَا بَلَغَتْ سِتًّا وَأَرْبَعِينَ فَفِيهَا حِقَّةٌ طَرُوقَةُ الْفَحْلِ إِلَی سِتِّينَ فَإِذَا بَلَغَتْ إِحْدَی وَسِتِّينَ فَفِيهَا جَذَعَةٌ إِلَی خَمْسٍ وَسَبْعِينَ فَإِذَا بَلَغَتْ سِتًّا وَسَبْعِينَ فَفِيهَا ابْنَتَا لَبُونٍ إِلَی تِسْعِينَ فَإِذَا بَلَغَتْ إِحْدَی وَتِسْعِينَ فَفِيهَا حِقَّتَانِ طَرُوقَتَا الْفَحْلِ إِلَی عِشْرِينَ وَمِائَةٍ فَإِذَا زَادَتْ عَلَی عِشْرِينَ وَمِائَةٍ فَفِي کُلِّ أَرْبَعِينَ بِنْتُ لَبُونٍ وَفِي کُلِّ خَمْسِينَ حِقَّةٌ فَإِذَا تَبَايَنَ أَسْنَانُ الْإِبِلِ فِي فَرَائِضِ الصَّدَقَاتِ فَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ الْجَذَعَةِ وَلَيْسَتْ عِنْدَهُ جَذَعَةٌ وَعِنْدَهُ حِقَّةٌ فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ وَأَنْ يَجْعَلَ مَعَهَا شَاتَيْنِ إِنْ اسْتَيْسَرَتَا لَهُ أَوْ عِشْرِينَ دِرْهَمًا وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ الْحِقَّةِ وَلَيْسَتْ عِنْدَهُ حِقَّةٌ وَعِنْدَهُ جَذَعَةٌ فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ وَيُعْطِيهِ الْمُصَدِّقُ عِشْرِينَ دِرْهَمًا أَوْ شَاتَيْنِ وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ الْحِقَّةِ وَلَيْسَ عِنْدَهُ حِقَّةٌ وَعِنْدَهُ ابْنَةُ لَبُونٍ فَإِنَّهَا تُقْبَلُ قَالَ أَبُو دَاوُد مِنْ هَاهُنَا لَمْ أَضْبِطْهُ عَنْ مُوسَی کَمَا أُحِبُّ وَيَجْعَلُ مَعَهَا شَاتَيْنِ إِنْ اسْتَيْسَرَتَا لَهُ أَوْ عِشْرِينَ دِرْهَمًا وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ بِنْتِ لَبُونٍ وَلَيْسَ عِنْدَهُ إِلَّا حِقَّةٌ فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ قَالَ أَبُو دَاوُد إِلَی هَاهُنَا ثُمَّ أَتْقَنْتُهُ وَيُعْطِيهِ الْمُصَدِّقُ عِشْرِينَ دِرْهَمًا أَوْ شَاتَيْنِ وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ ابْنَةِ لَبُونٍ وَلَيْسَ عِنْدَهُ إِلَّا بِنْتُ مَخَاضٍ فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ وَشَاتَيْنِ أَوْ عِشْرِينَ دِرْهَمًا وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ ابْنَةِ مَخَاضٍ وَلَيْسَ عِنْدَهُ إِلَّا ابْنُ لَبُونٍ ذَکَرٌ فَإِنَّهُ يُقْبَلُ مِنْهُ وَلَيْسَ مَعَهُ شَيْئٌ وَمَنْ لَمْ يَکُنْ عِنْدَهُ إِلَّا أَرْبَعٌ فَلَيْسَ فِيهَا شَيْئٌ إِلَّا أَنْ يَشَائَ رَبُّهَا وَفِي سَائِمَةِ الْغَنَمِ إِذَا کَانَتْ أَرْبَعِينَ فَفِيهَا شَاةٌ إِلَی عِشْرِينَ وَمِائَةٍ فَإِذَا زَادَتْ عَلَی عِشْرِينَ وَمِائَةٍ فَفِيهَا شَاتَانِ إِلَی أَنْ تَبْلُغَ مِائَتَيْنِ فَإِذَا زَادَتْ عَلَی مِائَتَيْنِ فَفِيهَا ثَلَاثُ شِيَاهٍ إِلَی أَنْ تَبْلُغَ ثَلَاثَ مِائَةٍ فَإِذَا زَادَتْ عَلَی ثَلَاثِ مِائَةٍ فَفِي کُلِّ مِائَةِ شَاةٍ شَاةٌ وَلَا يُؤْخَذُ فِي الصَّدَقَةِ هَرِمَةٌ وَلَا ذَاتُ عَوَارٍ مِنْ الْغَنَمِ وَلَا تَيْسُ الْغَنَمِ إِلَّا أَنْ يَشَائَ الْمُصَدِّقُ وَلَا يُجْمَعُ بَيْنَ مُفْتَرِقٍ وَلَا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ خَشْيَةَ الصَّدَقَةِ وَمَا کَانَ مِنْ خَلِيطَيْنِ فَإِنَّهُمَا يَتَرَاجَعَانِ بَيْنَهُمَا بِالسَّوِيَّةِ فَإِنْ لَمْ تَبْلُغْ سَائِمَةُ الرَّجُلِ أَرْبَعِينَ فَلَيْسَ فِيهَا شَيْئٌ إِلَّا أَنْ يَشَائَ رَبُّهَا وَفِي الرِّقَةِ رُبْعُ الْعُشْرِ فَإِنْ لَمْ يَکُنْ الْمَالُ إِلَّا تِسْعِينَ وَمِائَةً فَلَيْسَ فِيهَا شَيْئٌ إِلَّا أَنْ يَشَائَ رَبُّهَا
موسی بن اسماعیل، حضرت حماد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ثمامہ بن عبداللہ بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک کتاب لی جس کے متعلق انکا بیان تھا کہ اس کتاب کو حضرت انس کے واسطے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لکھا تھا اور اس پر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مہر کا نقش تھا اور یہ اس وقت کی بات ہے جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مصدق (صدقہ یعنی زکوة وصول کرنے والا) بنا کر بھیجا تو یہ کتاب ان کو لکھ کر دی تھی اس میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان مذکور تھا کہ یہ فرض زکوة کا بیان ہے جس کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کے حکم سے مسلمانوں پر لازم قرار دیا ہے پس جس مسلمان سے (اس کتاب میں مذکور تفصیل کے ساتھ) زکوة طلب کی جائے وہ اس کو ادا کرے اور اگر اس سے زائد طلب کی جائے تو نہ دے جب اونٹ پچیس سے کم ہوں تو اس کی زکوة بکریاں ہیں اس طرح پر کہ ہر پانچ اونٹوں پر ایک بکری ہے اور جب اونٹوں کی تعداد پچیس تک پہنچ جائے تو پھر ایک بنت مخاض (ایک سالہ اونٹنی) ہے یہ حساب پینتیس اونٹوں تک چلے گا اگر اس کے پاس بنت مخاض نہ ہو تو اس کے بدلہ میں ابن لبون (دو سالہ اونٹ ہے) اور جب چھتیس اونٹ پورے ہو جائے تو ان میں ایک بنت لبون ہے (دو سالہ اونٹنی) اور یہ حساب پنتالیس اونٹوں تک چلے گا اور جب چھیالیس اونٹ ہو جائیں تو ان میں ایک حقہ (تین سالہ اونٹنی جو گابھن ہونے کے لائق ہو) واجب ہوگی اور یہ حساب ساٹھ اونٹوں تک چلے گا اور جب اونٹوں کی تعداد اکسٹھ تک پہنچ جائے تو پھر ان میں ایک جذعہ (چار سالہ اونٹنی) واجب ہوگی اور یہ حساب پچھتر اونٹوں تک چلے گا جب اونٹوں کی تعداد چہترہو جائے تب ان میں دو بنت لبون واجب ہوں گی نوے اونٹ تک اور جب اکیانوے اونٹ ہو جائیں تو ان میں دو حقے ہوں گے جو گابھن ہونے کے لائق ہوں ایک سو بیس اونٹ تک اور جب اونٹ ایک سو بیس سے زیادہ ہوں تو ہر چالیس میں ایک بنت لبون اور ہر پچاس میں ایک حقہ دینا ہوگا اگر کسی کے پاس وہ اونٹ نہیں ہے جو مذکور ہو مثلاً کسی کے پاس اکسٹھ اونٹ ہوں جس پر ایک جذعہ واجب ہوتا ہے مگر اس کے پاس جذعہ نہ ہو بلکہ حقہ ہو تو وہی لے لیا جائے گا اور اگر مالک (جذعہ نہ ہونے کی صورت میں) حقہ کے ساتھ دو بکریاں یا (حقہ کے بدلہ) بیس درہم دینا چاہے تو لے لیا جائے اور جس شخص کے پاس اونٹوں کی اتنی تعداد ہوگئی جس پر حقہ واجب ہے مگر اس کے پاس حقہ موجود نہیں ہے بلکہ جذعہ ہے تو اس سے جذعہ لے لیا جائے گا اور صدقہ وصول کرنے والا بیس درہم یا دو بکریاں دے کر اس کا نقصان پورا کر دے گا اسی طرح اگر کسی پر حقہ واجب ہو مگر حقہ نہ ہو بلکہ بنت لبون ہو تو وہی لے لیا جائے گا ابوداؤد رحمہ اللہ تعالی علیہ کہ یہاں سے اس حدیث کو اپنے شیخ موسیٰ سے حسب منشاء ضبط نہی کر سکا یعنی یہ کہ اگر صاحب مال بنت لبون کے ساتھ ساتھ حقہ کے نقصان کی تلافی کے طور پر دو بکریاں یا بیس درہم دے دے (تو وہ بھی لے لے) اور اگر کسی کے پاس اونٹوں کی اتنی تعداد ہو جس پر ایک بنت لبون واجب ہوتی ہے مگر اس کے پاس صرف حقہ ہی ہے تو وہی لے لیا جائے گا ابوداؤد رحمہ اللہ تعالی علیہ کہ یہاں تک میں اس حدیث کو اچھی طرح ضبط نہ کر سکا اور صدقہ لینے والا صاحب مال کو بیس درہم یا دو بکریاں لوٹائے گا اور جس کے پاس اونٹوں کی تعداد اتنی ہوگئی کہ اس پر بنت لبون واجب ہوتی ہے مگر اس کے پاس صرف بنت مخاض ہے تو بنت مخاض ہی اس سے وصول کرلی جائے گی اور اس کے ساتھ دو بکریاں بھی لے لی جائیں گی یا بیس درہم۔ اور جس پر بنت مخاض واجب ہے اور اس کے پاس صرف ابن لبون ہی ہے تو اس سے وہی لے لیا جائے گا اور مزید کوئی چیز نہیں دی جائے گی۔ اور جس کے پاس صرف چار اونٹ ہوں اس پر کوئی زکوة نہیں ہے مگر جو اس کا مالک اپنی خوشی سے دینا چاہے (بکریوں کا نصاب) اور اکثر باہر چرنے والی بکریاں جب چالیس ہوں تو ان میں ایک بکری واجب ہے ایک سو بیس تک اور اس سے زیادہ میں دو بکریاں ہیں دو سو تک اور اس سے زیادہ میں تین بکریاں ہیں تین سو تک اور اس سے زیادہ ہوں تو ایک بکری ہے ہر سینکڑہ میں۔ اور زکوة میں بوڑھی اور عیب دار بکری نہیں لی جائے گی اور نہ بکرا لیا جائے گا سوائے اس کے کہ محصل بکرا ہی لینا چاہے اور نہ جمع کیا جائے متفرق مال اور نہ الگ الگ کیا جائے مشترک مال زکوة کے خوف سے اور جو نصاب دو آدمیوں میں مشترک ہو تو وہ برابر کا حصہ لگا کر ایک دوسرے پر رجوع کرلیں اگر جانور چالیس سے کم ہوں تو ان میں کچھ نہیں ہے الاّ یہ کہ مالک چاہے اور چاندی میں چالیسواں حصہ واجب ہے اگر ایک سو نوے درہم ہوں تو ان میں کچھ نہیں ہے الاّ یہ کہ مالک چاہے تو دیدے۔