اللہ تعالیٰ کا قول کہ جو لوگ تم میں مالدار اور وسعت والے ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں کہ وہ رشتہ داروں محتاجوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو نفقہ نہیں دیں گے انہیں معافی اور درگزر سے کام لینا چاہئے کیا تم یہ نہیں جانتے کہ اللہ تم کو بخش دے اللہ تو بخشنے والا مہربان ہے۔
راوی: ابو اسامہ , ہشام بن عروہ , عروہ , عائشہ
وَقَالَ أَبُو أُسَامَةَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبِي عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ لَمَّا ذُکِرَ مِنْ شَأْنِي الَّذِي ذُکِرَ وَمَا عَلِمْتُ بِهِ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيَّ خَطِيبًا فَتَشَهَّدَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَی عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ أَشِيرُوا عَلَيَّ فِي أُنَاسٍ أَبَنُوا أَهْلِي وَايْمُ اللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَی أَهْلِي مِنْ سُوئٍ وَأَبَنُوهُمْ بِمَنْ وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِ مِنْ سُوئٍ قَطُّ وَلَا يَدْخُلُ بَيْتِي قَطُّ إِلَّا وَأَنَا حَاضِرٌ وَلَا غِبْتُ فِي سَفَرٍ إِلَّا غَابَ مَعِي فَقَامَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ فَقَالَ ائْذَنْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْ نَضْرِبَ أَعْنَاقَهُمْ وَقَامَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي الْخَزْرَجِ وَکَانَتْ أُمُّ حَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ مِنْ رَهْطِ ذَلِکَ الرَّجُلِ فَقَالَ کَذَبْتَ أَمَا وَاللَّهِ أَنْ لَوْ کَانُوا مِنْ الْأَوْسِ مَا أَحْبَبْتَ أَنْ تُضْرَبَ أَعْنَاقُهُمْ حَتَّی کَادَ أَنْ يَکُونَ بَيْنَ الْأَوْسِ وَالْخَزْرَجِ شَرٌّ فِي الْمَسْجِدِ وَمَا عَلِمْتُ فَلَمَّا کَانَ مَسَائُ ذَلِکَ الْيَوْمِ خَرَجْتُ لِبَعْضِ حَاجَتِي وَمَعِي أُمُّ مِسْطَحٍ فَعَثَرَتْ وَقَالَتْ تَعِسَ مِسْطَحٌ فَقُلْتُ أَيْ أُمِّ تَسُبِّينَ ابْنَکِ وَسَکَتَتْ ثُمَّ عَثَرَتْ الثَّانِيَةَ فَقَالَتْ تَعَسَ مِسْطَحٌ فَقُلْتُ لَهَا أَيْ أُمِّ أَتَسُبِّينَ ابْنَکِ فَسَکَتَتْ ثُمَّ عَثَرَتْ الثَّالِثَةَ فَقَالَتْ تَعَسَ مِسْطَحٌ فَانْتَهَرْتُهَا فَقَالَتْ وَاللَّهِ مَا أَسُبُّهُ إِلَّا فِيکِ فَقُلْتُ فِي أَيِّ شَأْنِي قَالَتْ فَبَقَرَتْ لِي الْحَدِيثَ فَقُلْتُ وَقَدْ کَانَ هَذَا قَالَتْ نَعَمْ وَاللَّهِ فَرَجَعْتُ إِلَی بَيْتِي کَأَنَّ الَّذِي خَرَجْتُ لَهُ لَا أَجِدُ مِنْهُ قَلِيلًا وَلَا کَثِيرًا وَوُعِکْتُ فَقُلْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسِلْنِي إِلَی بَيْتِ أَبِي فَأَرْسَلَ مَعِي الْغُلَامَ فَدَخَلْتُ الدَّارَ فَوَجَدْتُ أُمَّ رُومَانَ فِي السُّفْلِ وَأَبَا بَکْرٍ فَوْقَ الْبَيْتِ يَقْرَأُ فَقَالَتْ أُمِّي مَا جَائَ بِکِ يَا بُنَيَّةُ فَأَخْبَرْتُهَا وَذَکَرْتُ لَهَا الْحَدِيثَ وَإِذَا هُوَ لَمْ يَبْلُغْ مِنْهَا مِثْلَ مَا بَلَغَ مِنِّي فَقَالَتْ يَا بُنَيَّةُ خَفِّفِي عَلَيْکِ الشَّأْنَ فَإِنَّهُ وَاللَّهِ لَقَلَّمَا کَانَتْ امْرَأَةٌ حَسْنَائُ عِنْدَ رَجُلٍ يُحِبُّهَا لَهَا ضَرَائِرُ إِلَّا حَسَدْنَهَا وَقِيلَ فِيهَا وَإِذَا هُوَ لَمْ يَبْلُغْ مِنْهَا مَا بَلَغَ مِنِّي قُلْتُ وَقَدْ عَلِمَ بِهِ أَبِي قَالَتْ نَعَمْ قُلْتُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ نَعَمْ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاسْتَعْبَرْتُ وَبَکَيْتُ فَسَمِعَ أَبُو بَکْرٍ صَوْتِي وَهُوَ فَوْقَ الْبَيْتِ يَقْرَأُ فَنَزَلَ فَقَالَ لِأُمِّي مَا شَأْنُهَا قَالَتْ بَلَغَهَا الَّذِي ذُکِرَ مِنْ شَأْنِهَا فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ قَالَ أَقْسَمْتُ عَلَيْکِ أَيْ بُنَيَّةُ إِلَّا رَجَعْتِ إِلَی بَيْتِکِ فَرَجَعْتُ وَلَقَدْ جَائَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتِي فَسَأَلَ عَنِّي خَادِمَتِي فَقَالَتْ لَا وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهَا عَيْبًا إِلَّا أَنَّهَا کَانَتْ تَرْقُدُ حَتَّی تَدْخُلَ الشَّاةُ فَتَأْکُلَ خَمِيرَهَا أَوْ عَجِينَهَا وَانْتَهَرَهَا بَعْضُ أَصْحَابِهِ فَقَالَ اصْدُقِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّی أَسْقَطُوا لَهَا بِهِ فَقَالَتْ سُبْحَانَ اللَّهِ وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهَا إِلَّا مَا يَعْلَمُ الصَّائِغُ عَلَی تِبْرِ الذَّهَبِ الْأَحْمَرِ وَبَلَغَ الْأَمْرُ إِلَی ذَلِکَ الرَّجُلِ الَّذِي قِيلَ لَهُ فَقَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ وَاللَّهِ مَا کَشَفْتُ کَنَفَ أُنْثَی قَطُّ قَالَتْ عَائِشَةُ فَقُتِلَ شَهِيدًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ قَالَتْ وَأَصْبَحَ أَبَوَايَ عِنْدِي فَلَمْ يَزَالَا حَتَّی دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ صَلَّی الْعَصْرَ ثُمَّ دَخَلَ وَقَدْ اکْتَنَفَنِي أَبَوَايَ عَنْ يَمِينِي وَعَنْ شِمَالِي فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَی عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ يَا عَائِشَةُ إِنْ کُنْتِ قَارَفْتِ سُوئًا أَوْ ظَلَمْتِ فَتُوبِي إِلَی اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ مِنْ عِبَادِهِ قَالَتْ وَقَدْ جَائَتْ امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فَهِيَ جَالِسَةٌ بِالْبَابِ فَقُلْتُ أَلَا تَسْتَحْيِ مِنْ هَذِهِ الْمَرْأَةِ أَنْ تَذْکُرَ شَيْئًا فَوَعَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَالْتَفَتُّ إِلَی أَبِي فَقُلْتُ لَهُ أَجِبْهُ قَالَ فَمَاذَا أَقُولُ فَالْتَفَتُّ إِلَی أُمِّي فَقُلْتُ أَجِيبِيهِ فَقَالَتْ أَقُولُ مَاذَا فَلَمَّا لَمْ يُجِيبَاهُ تَشَهَّدْتُ فَحَمِدْتُ اللَّهَ وَأَثْنَيْتُ عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قُلْتُ أَمَّا بَعْدُ فَوَاللَّهِ لَئِنْ قُلْتُ لَکُمْ إِنِّي لَمْ أَفْعَلْ وَاللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَشْهَدُ إِنِّي لَصَادِقَةٌ مَا ذَاکَ بِنَافِعِي عِنْدَکُمْ لَقَدْ تَکَلَّمْتُمْ بِهِ وَأُشْرِبَتْهُ قُلُوبُکُمْ وَإِنْ قُلْتُ إِنِّي قَدْ فَعَلْتُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنِّي لَمْ أَفْعَلْ لَتَقُولُنَّ قَدْ بَائَتْ بِهِ عَلَی نَفْسِهَا وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَجِدُ لِي وَلَکُمْ مَثَلًا وَالْتَمَسْتُ اسْمَ يَعْقُوبَ فَلَمْ أَقْدِرْ عَلَيْهِ إِلَّا أَبَا يُوسُفَ حِينَ قَالَ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَی مَا تَصِفُونَ وَأُنْزِلَ عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ سَاعَتِهِ فَسَکَتْنَا فَرُفِعَ عَنْهُ وَإِنِّي لَأَتَبَيَّنُ السُّرُورَ فِي وَجْهِهِ وَهُوَ يَمْسَحُ جَبِينَهُ وَيَقُولُ أَبْشِرِي يَا عَائِشَةُ فَقَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ بَرَائَتَکِ قَالَتْ وَکُنْتُ أَشَدَّ مَا کُنْتُ غَضَبًا فَقَالَ لِي أَبَوَايَ قُومِي إِلَيْهِ فَقُلْتُ لَا وَاللَّهِ لَا أَقُومُ إِلَيْهِ وَلَا أَحْمَدُهُ وَلَا أَحْمَدُکُمَا وَلَکِنْ أَحْمَدُ اللَّهَ الَّذِي أَنْزَلَ بَرَائَتِي لَقَدْ سَمِعْتُمُوهُ فَمَا أَنْکَرْتُمُوهُ وَلَا غَيَّرْتُمُوهُ وَکَانَتْ عَائِشَةُ تَقُولُ أَمَّا زَيْنَبُ ابْنَةُ جَحْشٍ فَعَصَمَهَا اللَّهُ بِدِينِهَا فَلَمْ تَقُلْ إِلَّا خَيْرًا وَأَمَّا أُخْتُهَا حَمْنَةُ فَهَلَکَتْ فِيمَنْ هَلَکَ وَکَانَ الَّذِي يَتَکَلَّمُ فِيهِ مِسْطَحٌ وَحَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ وَالْمُنَافِقُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ وَهُوَ الَّذِي کَانَ يَسْتَوْشِيهِ وَيَجْمَعُهُ وَهُوَ الَّذِي تَوَلَّی کِبْرَهُ مِنْهُمْ هُوَ وَحَمْنَةُ قَالَتْ فَحَلَفَ أَبُو بَکْرٍ أَنْ لَا يَنْفَعَ مِسْطَحًا بِنَافِعَةٍ أَبَدًا فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْکُمْ إِلَی آخِرِ الْآيَةِ يَعْنِي أَبَا بَکْرٍ وَالسَّعَةِ أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَی وَالْمَسَاکِينَ يَعْنِي مِسْطَحًا إِلَی قَوْلِهِ أَلَا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَکُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ حَتَّی قَالَ أَبُو بَکْرٍ بَلَی وَاللَّهِ يَا رَبَّنَا إِنَّا لَنُحِبُّ أَنْ تَغْفِرَ لَنَا وَعَادَ لَهُ بِمَا کَانَ يَصْنَعُ
ابو اسامہ، ہشام بن عروہ، عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ جس وقت لوگوں نے میرے متعلق جھوٹا الزام مشہور کیا اور مجھے اس کا صحیح حال معلوم نہ تھا لہذا ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ پڑھا کلمہ تشہد کے بعد اللہ کی حمد و ثناء بیان کی اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا کہ تم مجھے ان لوگوں کے متعلق مشورہ دو جنہوں نے میری بیوی کو اتہام لگایا ہے اللہ گواہ ہے کہ میں نے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا میں کوئی برائی نہیں دیکھی ہے اور جس کے ساتھ اسے متہم کیا گیا ہے اس میں بھی کوئی برائی نہیں دیکھی ہے وہ ہمیشہ میرے ساتھ گھر میں آتا اور جاتا ہے سفر میں بھی میرے ہی ہمراہ رہتا ہے یہ بات سن کر قبیلہ اوس کے سردار سعد بن معاذ کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! حکم دیجئے تو تہمت لگانے والے کی گردن مار دوں اس کے بعد قبیلہ خزرج کے سردار سعد بن عبادہ اٹھے اور کہنے لگے کہ تو نے غلط کہا ہے اگر یہ تہمت لگانے والے خزرج کے لوگ ہیں تو تو انہیں کبھی نہیں مار سکتا اس کے بعد دونوں قبیلوں میں تکرار شروع ہوگئی اور مجھے کچھ واقفیت نہ تھی اس کے بعد میں شام کو ام مسطح کے ساتھ جنگل میں رفع حاجت کو گئی راستہ میں ام مسطح کے پاؤں میں چادر الجھ گئی اس نے کہا مسطح ہلاک ہو میں نے کہا اپنے بیٹے کو کیوں کوستی ہے؟ اس نے پھر دوسری اور تیسری مرتبہ بھی اسی طرح کوسا میں نے ذرا جھڑک کر وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ میں تمہاری وجہ سے اسے کوستی ہوں میں نے کہا میری وجہ سے؟ کیا مطلب؟ تو اس نے کہا کہ وہ بھی تہمت لگانے والوں میں شامل ہے میں نے پوچھا کیا یہ بات مشہور ہوگئی ہے؟ اس نے کہا اچھی طرح میں جلدی سے گھبرائی ہوئی اپنے گھر آئی اور یہ بھی بھول گئی کہ کہاں گئی تھی اور کہاں سے آئی ہوں بس بیمار پڑ گئی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت مانگی کہ میں اپنے باپ کے گھر جانا چاہتی ہوں تو آپ نے ایک غلام کو میرے ہمراہ کردیا جب میں گھر آئی تو میری والدہ ام رومان نیچے تھیں اور (میرے والد) حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھر کے اوپر کچھ پڑھنے میں مصروف تھے ماں نے پوچھا بیٹی کیسے آنا ہوا؟ میں نے بہتان کا تمام واقعہ سنا دیا مگر انہیں میری طرح بہت زیادہ رنج نہیں ہوا اور کہا اے میری بیٹی! تو اتنی فکر کیوں کرتی ہے؟ تو اپنے آپ کو سنبھال ایسا تو ہوتا چلا آیا ہے جب کسی مرد کے پاس کوئی خوبصورت بیوی ہوتی ہے جس سے مرد کو محبت ہوتی ہے اور اس کی سوکنیں بھی ہوتی ہیں تو وہ اس پر حسد کرتی ہیں اور طرح طرح کی باتیں بناتی ہیں غرض میری ماں پر اس طوفان کا وہ صدمہ نہیں ہوا جیسا صدمہ مجھے ہوا میں نے پوچھا کیا اس قصہ کی خبر والد کو بھی ہوگئی ہے؟ انہوں نے کہا ہاں! میں نے کہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی؟ انہوں نے کہا ہاں! ان کو بھی خبر ہے اس کے بعد میں رونے لگی میری آواز سن کر والد بھی نیچے آ گئے اور رونے کی وجہ پوچھی تو ماں نے کہا اس تہمت کے خیال سے روتی ہے انہوں نے مجھ سے کہا کہ میری بیٹی! بس تم اپنے گھر چلی جاؤ میں گھر آگئی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تشریف لے آئے اور میری باندی سے میرے حالات دریافت کئے باندی نے جواب دیا کہ میں نے اللہ کی قسم! اس میں کوئی برائی نہیں دیکھی ہے صرف یہ بھولی بھالی اور سیدھی سادھی ہیں آٹا گوندھ کر چھوڑ دیتی ہیں اور بکری آکر کھالیتی ہے آپ کے اصحاب میں سے بعض نے لونڈی کو ڈانٹ کر کہا کہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سچ سچ کیوں نہیں کہہ دیتی تو اس نے کہا سبحان اللہ! میں ان کو اس طرح جانتی ہوں جس طرح سنار سونے کی ڈلی کو جانتا ہے یہ خبر صفوان کو بھی ہوئی تو اس نے کہا سبحان اللہ! جب سے میری بیوی کا انتقال ہوا ہے میں نے کسی عورت کے منہ کو بری نیت سے نہیں دیکھا ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ صفوان اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے۔ دوسرے دن میرے والدین میرے گھر آئے اور بیٹھے رہے یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تشریف لے آئے عصر کی نماز ہو چکی تھی میرے ماں باپ مجھے پکڑے ہوئے تھے (بوجہ رونے اور بیماری کے) ایک انصاریہ عورت بھی آئی ہوئی تھی اور بیٹھی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا اے عائشہ! اگر تم سے گناہ ہوگیا ہے تو اللہ کی طرف توبہ کرو اللہ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے میں نے کہا آپ اس عورت کے سامنے مجھے ایسی بات فرما رہے ہیں اس بات کا تو آپ کو خیال رکھنا چاہئے تھا پھر اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ کو نصیحت فرمائی میں نے اپنے باپ کی طرف دیکھا جس کا مطلب یہ تھا کہ آپ میری طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جواب دیں تو انہوں نے کہا میں کیا جواب دوں؟ پھر میں نے اپنی ماں کی طرف دیکھا کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جواب دیں انہوں نے بھی یہی کہا کہ میں کیا جواب دوں؟ آخر میں نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کے بعد عرض کیا کہ اللہ کی قسم! اگر میں یہ کہوں کہ یہ کام میں نے نہیں کیا ہے اور اللہ کو گواہ کروں تب بھی آپ لوگ یقین نہیں کریں گے کیونکہ آپ کے دلوں میں لوگوں کی باتیں گھر کر چکی ہیں اور اگر میں یہ کہوں کہ مجھ سے ایسا ہوگیا ہے اور اللہ تعالیٰ کو علم ہے کہ میں نے ایسا نہیں کیا لیکن آپ سب یقین کرلیں گے اور کہہ دیں گے کہ ہاں اب اس نے اقرار کرلیا ہے درحقیقت میری اور آپ کی مثال ایسی ہے جیسے حضرت یوسف علیہ السلام کے والد کی کہ انہوں نے کہا تھا کہ (فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَی مَا تَصِفُونَ) یعنی میں اچھی طرح صبر کروں گا اور اللہ تعالیٰ مدد گار ہے جو تم بیان کرتے ہو اس کے فورا بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ہونے لگی اور ہم سب خاموش ہو گئے وحی کے بعد آپ خوش ہو کر فرمانے لگے کہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تم کو خوش ہو جانا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری برأت اور نجات کا حکم نازل فرمایا ہے اس وقت اس خیال سے مجھے بہت ملال ہوا کہ دیکھو میری بات سے ان کو یقین نہیں آیا پھر میرے والدین نے مجھ سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شکریہ ادا کرو میں نے کہا و اللہ میں ان کے پاس نہیں جاؤں گی اور نہ شکریہ ادا کروں گی میں تو اپنے اللہ کا شکریہ ادا کروں گی کہ اس نے مجھے برأت کی بشارت سنائی ورنہ تم نے افواہ کو سن کر یقین ہی کرلیا تھا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں اللہ نے اس قصہ میں زینب بنت جحش کو جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی تھیں محفوظ رکھا۔ انہوں نے میرے متعلق بجز خیر کے اور کچھ نہیں کہا مگر ان کی بہن حمنہ تہمت لگانے والوں کے ساتھ ہلاک ہوئی تہمت لگانے والوں میں یہ لوگ شامل تھے مسطح، حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور منافق عبداللہ بن ابی بن سلول اور یہ شخص وہ ہے جو جھوٹ گھڑا کرتا تھا اور اس بہتان کی ابتداء اس کی اور حمنہ کی طرف سے ہوئی جب کہ وحی وغیرہ آ چکی تو میرے والد ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اب میں مسطح کو نان و نفقہ وغیرہ نہیں دوں گا تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (وَلَا يَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ الخ۔ ) 24۔ النور : 22) یعنی صاحب مال و استطاعت (یعنی ابوبکر) قسم نہ کھائیں کہ ہم مساکین اور قرابت داروں (یعنی مسطح) کو نہیں دیں گے آخر آیت غفور رحیم تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہم تو یہی چاہتے ہیں کہ اللہ ہم کو بخش دے اس کے علاوہ وہ اسی طرح مسطح کو نفقہ وغیرہ دینے لگے جیسے کہ پہلے دیتے تھے۔
Narrated Aisha:
When there was said about me what was said which I myself was unaware of, Allah's Apostle got up and addressed the people. He recited Tashah-hud, and after glorifying and praising Allah as He deserved, he said, "To proceed: O people Give me your opinion regarding those people who made a forged story against my wife. By Allah, I do not know anything bad about her. By Allah, they accused her of being with a man about whom I have never known anything bad, and he never entered my house unless I was present there, and whenever I went on a journey, he went with me." Sad bin Mu'adh got up and said, "O Allah's Apostle Allow me to chop their heads off" Then a man from the Al-Khazraj (Sa'd bin 'Ubada) to whom the mother of (the poet) Hassan bin Thabit was a relative, got up and said (to Sad bin Mu'adh), "You have told a lie! By Allah, if those persons were from the Aus Tribe, you would not like to chop their heads off." It was probable that some evil would take place between the Aus and the Khazraj in the mosque, and I was unaware of all that. In the evening of that day, I went out for some of my needs (i.e. to relieve myself), and Um Mistah was accompanying me. On our return, Um Mistah stumbled and said, "Let Mistah. be ruined" I said to her, "O mother Why do you abuse your Son" On that Um Mistah became silent for a while, and stumbling again, she said, "Let Mistah be ruined" I said to her, "Why do you abuse your son?" She stumbled for the third time and said, "Let Mistah be ruined" whereupon I rebuked her for that. She said, "By Allah, I do not abuse him except because of you." I asked her, "Concerning what of my affairs?" So she disclosed the whole story to me. I said, "Has this really happened?" She replied, "Yes, by Allah." I returned to my house, astonished (and distressed) that I did not know for what purpose I had gone out. Then I became sick (fever) and said to Allah's Apostle "Send me to my father's house." So he sent a slave with me, and when I entered the house, I found Um Rum-an (my mother) downstairs while (my father) Abu Bakr was reciting something upstairs. My mother asked, "What has brought you, O (my) daughter?" I informed her and mentioned to her the whole story, but she did not feel it as I did. She said, "O my daughter! Take it easy, for there is never a charming lady loved by her husband who has other wives but that they feel jealous of her and speak badly of her." But she did not feel the news as I did. I asked (her), "Does my father know about it?" She said, "yes" I asked, Does Allah's Apostle know about it too?" She said, "Yes, Allah's Apostle does too." So the tears filled my eyes and I wept. Abu Bakr, who was reading upstairs heard my voice and came down and asked my mother, "What is the matter with her? " She said, "She has heard what has been said about her (as regards the story of Al-lfk)." On that Abu- Bakr wept and said, "I beseech you by Allah, O my daughter, to go back to your home" I went back to my home and Allah's Apostle had come to my house and asked my maid-servant about me (my character). The maid-servant said, "By Allah, I do not know of any defect in her character except that she sleeps and let the sheep enter (her house) and eat her dough." On that, some of the Prophet's companions spoke harshly to her and said, "Tell the truth to Allah's Apostle." Finally they told her of the affair (of the slander). She said, "Subhan Allah! By Allah, I know nothing against her except what goldsmith knows about a piece of pure gold." Then this news reached the man who was accused, and he said, "Subhan Allah! By Allah, I have never uncovered the private parts of any woman." Later that man was martyred in Allah's Cause. Next morning my parents came to pay me a visit and they stayed with me till Allah's Apostle came to me after he had offered the Asr prayer. He came to me while my parents were sitting around me on my right and my left. He praised and glorified Allah and said, "Now then O 'Aisha! If you have committed a bad deed or you have wronged (yourself), then repent to Allah as Allah accepts the repentance from his slaves." An Al-Ansari woman had come and was sitting near the gate. I said (to the Prophet). "Isn't it improper that you speak in such a way in the presence of this lady? Allah's Apostle then gave a piece of advice and I turned to my father and requested him to answer him (on my behalf). My father said, "What should I say?" Then I turned to my mother and asked her to answer him. She said, "What should I say?" When my parents did not give a reply to the Prophet, I said, "I testify that none has the right to be worshipped except Allah, and that Muhammad is His Apostle!" And after praising and glorifying Allah as He deserves, I said, "Now then, by Allah, if I were to tell you that I have not done (this evil action) and Allah is a witness that I am telling the truth, that would not be of any use to me on your part because you (people) have spoken about it and your hearts have absorbed it; and if I were to tell you that I have done this sin and Allah knows that I have not done it, then you will say, 'She has confessed herself guilty." By Allah, 'I do not see a suitable example for me and you but the example of (I tried to remember Jacob's name but couldn't) Joseph's father when he said; So (for me) "Patience is most fitting against that which you assert. It is Allah (alone) whose help can be sought.' At that very hour the Divine Inspiration came to Allah's Apostle and we remained silent. Then the Inspiration was over and I noticed the signs of happiness on his face while he was removing (the sweat) from his forehead and saying, "Have the good tidings O ' "Aisha! Allah has revealed your innocence." At that time I was extremely angry. My parents said to me. "Get up and go to him." I said, "By Allah, I will not do it and will not thank him nor thank either of you, but I will thank Allah Who has revealed my innocence. You have heard this story but neither did not deny it nor change it (to defend me)," (Aisha used to say:) "But as regards Zainab bint Jahsh, (the Prophet's wife), Allah protected her because of her piety, so she did not say anything except good (about me), but her sister, Hamna, was ruined among those who were ruined. Those who used to speak evil about me were Mistah, Hassan bin Thabit, and the hypocrite, Abdullah bin Ubai, who used to spread that news and tempt others to speak of it, and it was he and Hamna who had the greater share therein. Abu Bakr took an oath that he would never do any favor to Mistah at all. Then Allah revealed the Divine Verse:–
"Let not those among you who are good and wealthy (i.e. Abu Bakr) swear not to give (any sort of help) to their kinsmen, and those in need, (i.e. Mistah) …Do you not love that Allah should forgive you? And Allah if Oft-Forgiving, Most Merciful." (24.22)
On that, Abu Bakr said, "Yes, by Allah, O our Lord! We wish that You should forgive us." So Abu Bakr again started giving to Mistah the expenditure which he used to give him before.