باب (نیو انٹری)
راوی:
سُورَةُ الْفُرْقَانِ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ هَبَاءً مَنْثُورًا مَا تَسْفِي بِهِ الرِّيحُ مَدَّ الظِّلَّ مَا بَيْنَ طُلُوعِ الْفَجْرِ إِلَى طُلُوعِ الشَّمْسِ سَاكِنًا دَائِمًا عَلَيْهِ دَلِيلًا طُلُوعُ الشَّمْسِ خِلْفَةً مَنْ فَاتَهُ مِنْ اللَّيْلِ عَمَلٌ أَدْرَكَهُ بِالنَّهَارِ أَوْ فَاتَهُ بِالنَّهَارِ أَدْرَكَهُ بِاللَّيْلِ وَقَالَ الْحَسَنُ هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ فِي طَاعَةِ اللَّهِ وَمَا شَيْءٌ أَقَرَّ لِعَيْنِ الْمُؤْمِنِ مِنْ أَنْ يَرَى حَبِيبَهُ فِي طَاعَةِ اللَّهِ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ ثُبُورًا وَيْلًا وَقَالَ غَيْرُهُ السَّعِيرُ مُذَكَّرٌ وَالتَّسَعُّرُ وَالْاضْطِرَامُ التَّوَقُّدُ الشَّدِيدُ تُمْلَى عَلَيْهِ تُقْرَأُ عَلَيْهِ مِنْ أَمْلَيْتُ وَأَمْلَلْتُ الرَّسُّ الْمَعْدِنُ جَمْعُهُ رِسَاسٌ مَا يَعْبَأُ يُقَالُ مَا عَبَأْتُ بِهِ شَيْئًا لَا يُعْتَدُّ بِهِ غَرَامًا هَلَاكًا وَقَالَ مُجَاهِدٌ وَعَتَوْا طَغَوْا وَقَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ عَاتِيَةٍ عَتَتْ عَنْ الْخَزَّانِ
سورة فرقان کی تفسیر!
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ابن عباس کہتے ہیں کہ ”ھباء منثورا“ کے معنی ہیں وہ چیز جو ہوا کے ساتھ آئے جیسے گردو غبار ”مد الظل“ صبح صادق سے طلوع آفتاب تک وقت ”ساکنا“ ہمیشہ ”علیہ دلیلا“ کے معنی آفتاب کا نکلنا ”خلفتہ“ وہ کام جو رات کو رہ جائے اور دن کو پورا کیا جائے‘ اور اگر دن کو رہ جائے تو رات کو پورا کیاجائے‘ حسن کہتے ہیں کہ ”قرة اعین“ آنکھ کی ٹھنڈک ‘جیسے بیبیاں ‘اولاد وغیرہ ‘ابن عباس کہتے ہیں کہ ”ثبورا“ کے معنی ہلاکت و بربادی کے ہیں‘ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ”سعیر“ مذکر ہے اور ”تسعر“ سے بنا ہے ”اضطرام“ آگ کا لگنا ‘ خوب بڑھکنا” تملی علیہ“ کے معنی ہیں کہ اس کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ”یہ لفظ”املیت یا امللت“ سے بنا ہے‘’ الرس“ کان ‘معدن‘ اس کی جمع ”رساس“ ہے ‘ کچھ لوگوں نے کہا کہ ”رس“ کنویں کو کہتے ہیں ‘عرب لوگ کہتے ہیں ”ماعبات بہ شیئا“ یعنی میں نے اس کی کوئی پرواہ نہیں کی ‘کوئی حقیقت نہیں سمجھی ”غراما“ ہلاکت۔ مجاہد کا بیان ہے کہ ”عتوا“ کے معنی شرارت ہیں‘ ابن عیینہ کہتے ہیں کہ ”عاتیہ“ کے معنی حد سے گزرنا یہ ”عتو“ سے بنا ہے اس کے معنی لہر کے ہیں‘ جو حوض وغیرہ سے پار چلی جائے۔