باب (نیو انٹری)
راوی:
سُورَةُ الشُّعَرَاءِ وَقَالَ مُجَاهِدٌ تَعْبَثُونَ تَبْنُونَ هَضِيمٌ يَتَفَتَّتُ إِذَا مُسَّ مُسَحَّرِينَ الْمَسْحُورِينَ لَيْكَةُ وَالْأَيْكَةُ جَمْعُ أَيْكَةٍ وَهِيَ جَمْعُ شَجَرٍ يَوْمِ الظُّلَّةِ إِظْلَالُ الْعَذَابِ إِيَّاهُمْ مَوْزُونٍ مَعْلُومٍ كَالطَّوْدِ كَالْجَبَلِ وَقَالَ غَيْرُهُ لَشِرْذِمَةٌ الشِّرْذِمَةُ طَائِفَةٌ قَلِيلَةٌ فِي السَّاجِدِينَ الْمُصَلِّينَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ كَأَنَّكُمْ الرِّيعُ الْأَيْفَاعُ مِنْ الْأَرْضِ وَجَمْعُهُ رِيَعَةٌ وَأَرْيَاعٌ وَاحِدُهُ رِيعَةٌ مَصَانِعَ كُلُّ بِنَاءٍ فَهُوَ مَصْنَعَةٌ فَرِهِينَ مَرِحِينَ فَارِهِينَ بِمَعْنَاهُ وَيُقَالُ فَارِهِينَ حَاذِقِينَ تَعْثَوْا هُوَ أَشَدُّ الْفَسَادِ عَاثَ يَعِيثُ عَيْثًا الْجِبِلَّةَ الْخَلْقُ جُبِلَ خُلِقَ وَمِنْهُ جُبُلًا وَجِبِلًا وَجُبْلًا يَعْنِي الْخَلْقَ قَالَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ
سورة شعراءکی تفسیر!
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مجاہد کہتے ہیں کہ ”تعبثون“ کے معنی تم بناتے ہو”ھضیم“ وہ چیز جو چھوتے ہی ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے ”مسحرین“ جادو کئے گئے ”ایکة“ و ”ایکة“ جنگل کو کہتے ہیں ”یوم الظلتہ“ وہ دن کہ جب عذاب ان پر سایہ کرے گا ”موزون“ معلوم ”کالطود“ پہاڑ کی طرح ”شرذمة“ چھوٹا گروہ” فی الساجدین“ سجدہ کرنے والوں میں‘ ابن عباس کا بیان ہے کہ ”لعلکم تخلدون“ کے معنی یہ ہیں کہ ہمیشہ رہو گے ۔ ”ربعة“ ٹیلہ اس کی جمع ”اریاع“ بھی آتی ہے اور ”ریعہ“ بھی آتی ہے ”مصانع“ محل وغیرہ ‘عمارت ”فرھین“ اتراتے ہوئے اور ”فارھین“ کے بھی یہی معنی ہے کچھ دوسرے لوگوں نے کہا ہے کہ ”فارہین“ ہوشیا کاری گر کہتے ہیں ”تعثوا“ کے معنی ہیں‘ بہت سخت یہ ”عثو“ سے مشتق ہے ”عات ‘یعیث عیثا“ جبلة“ کے معنی ہیں ‘ خلقت ‘مخلوق پیدا کیا گیا” جبلا“ ”سب کے ایک ہی معنی ہیں ۔