صحیح مسلم ۔ جلد سوم ۔ جہاد کا بیان ۔ حدیث 83

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا جو ہم چھوڑیں وہ صدقہ ہے کے بیان میں

راوی: محمد بن رافع , حجین , لیث , عقیل , ابن شہاب , عروہ بن زبیر , عائشہ

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ أَخْبَرَنَا حُجَيْنٌ حَدَّثَنَا لَيْثٌ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَتْ إِلَی أَبِي بَکْرٍ الصِّدِّيقِ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا أَفَائَ اللَّهُ عَلَيْهِ بِالْمَدِينَةِ وَفَدَکٍ وَمَا بَقِيَ مِنْ خُمْسِ خَيْبَرَ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا نُورَثُ مَا تَرَکْنَا صَدَقَةٌ إِنَّمَا يَأْکُلُ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْمَالِ وَإِنِّي وَاللَّهِ لَا أُغَيِّرُ شَيْئًا مِنْ صَدَقَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ حَالِهَا الَّتِي کَانَتْ عَلَيْهَا فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَأَعْمَلَنَّ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَبَی أَبُو بَکْرٍ أَنْ يَدْفَعَ إِلَی فَاطِمَةَ شَيْئًا فَوَجَدَتْ فَاطِمَةُ عَلَی أَبِي بَکْرٍ فِي ذَلِکَ قَالَ فَهَجَرَتْهُ فَلَمْ تُکَلِّمْهُ حَتَّی تُوُفِّيَتْ وَعَاشَتْ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ فَلَمَّا تُوُفِّيَتْ دَفَنَهَا زَوْجُهَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ لَيْلًا وَلَمْ يُؤْذِنْ بِهَا أَبَا بَکْرٍ وَصَلَّی عَلَيْهَا عَلِيٌّ وَکَانَ لِعَلِيٍّ مِنْ النَّاسِ وِجْهَةٌ حَيَاةَ فَاطِمَةَ فَلَمَّا تُوُفِّيَتْ اسْتَنْکَرَ عَلِيٌّ وُجُوهَ النَّاسِ فَالْتَمَسَ مُصَالَحَةَ أَبِي بَکْرٍ وَمُبَايَعَتَهُ وَلَمْ يَکُنْ بَايَعَ تِلْکَ الْأَشْهُرَ فَأَرْسَلَ إِلَی أَبِي بَکْرٍ أَنْ ائْتِنَا وَلَا يَأْتِنَا مَعَکَ أَحَدٌ کَرَاهِيَةَ مَحْضَرِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَقَالَ عُمَرُ لِأَبِي بَکْرٍ وَاللَّهِ لَا تَدْخُلْ عَلَيْهِمْ وَحْدَکَ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ وَمَا عَسَاهُمْ أَنْ يَفْعَلُوا بِي إِنِّي وَاللَّهِ لَآتِيَنَّهُمْ فَدَخَلَ عَلَيْهِمْ أَبُو بَکْرٍ فَتَشَهَّدَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ ثُمَّ قَالَ إِنَّا قَدْ عَرَفْنَا يَا أَبَا بَکْرٍ فَضِيلَتَکَ وَمَا أَعْطَاکَ اللَّهُ وَلَمْ نَنْفَسْ عَلَيْکَ خَيْرًا سَاقَهُ اللَّهُ إِلَيْکَ وَلَکِنَّکَ اسْتَبْدَدْتَ عَلَيْنَا بِالْأَمْرِ وَکُنَّا نَحْنُ نَرَی لَنَا حَقًّا لِقَرَابَتِنَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَزَلْ يُکَلِّمُ أَبَا بَکْرٍ حَتَّی فَاضَتْ عَيْنَا أَبِي بَکْرٍ فَلَمَّا تَکَلَّمَ أَبُو بَکْرٍ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَرَابَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ أَصِلَ مِنْ قَرَابَتِي وَأَمَّا الَّذِي شَجَرَ بَيْنِي وَبَيْنَکُمْ مِنْ هَذِهِ الْأَمْوَالِ فَإِنِّي لَمْ آلُ فِيهَا عَنْ الْحَقِّ وَلَمْ أَتْرُکْ أَمْرًا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُهُ فِيهَا إِلَّا صَنَعْتُهُ فَقَالَ عَلِيٌّ لِأَبِي بَکْرٍ مَوْعِدُکَ الْعَشِيَّةُ لِلْبَيْعَةِ فَلَمَّا صَلَّی أَبُو بَکْرٍ صَلَاةَ الظُّهْرِ رَقِيَ عَلَی الْمِنْبَرِ فَتَشَهَّدَ وَذَکَرَ شَأْنَ عَلِيٍّ وَتَخَلُّفَهُ عَنْ الْبَيْعَةِ وَعُذْرَهُ بِالَّذِي اعْتَذَرَ إِلَيْهِ ثُمَّ اسْتَغْفَرَ وَتَشَهَّدَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ فَعَظَّمَ حَقَّ أَبِي بَکْرٍ وَأَنَّهُ لَمْ يَحْمِلْهُ عَلَی الَّذِي صَنَعَ نَفَاسَةً عَلَی أَبِي بَکْرٍ وَلَا إِنْکَارًا لِلَّذِي فَضَّلَهُ اللَّهُ بِهِ وَلَکِنَّا کُنَّا نَرَی لَنَا فِي الْأَمْرِ نَصِيبًا فَاسْتُبِدَّ عَلَيْنَا بِهِ فَوَجَدْنَا فِي أَنْفُسِنَا فَسُرَّ بِذَلِکَ الْمُسْلِمُونَ وَقَالُوا أَصَبْتَ فَکَانَ الْمُسْلِمُونَ إِلَی عَلِيٍّ قَرِيبًا حِينَ رَاجَعَ الْأَمْرَ الْمَعْرُوفَ

محمد بن رافع، حجین، لیث، عقیل، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، حضرت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی میراث کے بارے میں پوچھنے کے لئے پیغام بھیجا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ اور فدک کے فئی اور خبیر کے خمس سے حصہ میں ملا تھا حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم کسی کو وارث نہیں چھوڑتے اور ہم جو چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے البتہ آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس مال سے کھاتے رہیں گے اور میں اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقہ میں کسی چیز کی بھی تبدیلی نہیں کر سکتا اس صورت سے جس میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھی اور میں اس میں وہی معاملہ کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بارے میں فرمایا کرتے تھے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس میں سے کوئی بھی چیز حضرت فاطمہ کو دینے سے انکار کر دیا حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس وجہ سے ناراضگی ہوئی پس انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بولنا ترک کر دیا اور ان سے بات نہ کی یہاں تک کہ وہ فوت ہو گئیں اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چھ ماہ تک زندہ رہیں جب وہ فوت ہو گئیں تو انہیں ان کے خاوند حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ابوطالب نے رات کو ہی دفن کر دیا اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کی اطلاع نہ دی اور ان کا جنازہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پڑھایا اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے لوگوں کا فاطمہ کی زندگی میں کچھ میلان تھا جب وہ فوت ہو گئیں تو علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کے رویہ میں کچھ تبدیلی محسوس کی تو انہوں نے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ صلح اور بیعت کا راستہ ہموار کرنا چاہا کیونکہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان مہینوں تک بیعت نہ کی تھی اور انہوں نے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف پیغام بھیجا کہ ہمارے پاس آؤ اور تمہارے سوا کوئی اور نہ آئے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن خطاب کے آنے کا ناپسند کرنے کی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا اللہ کی قسم آپ ان کے پاس اکیلے نہ جائیں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا مجھے ان سے یہ امید نہیں کہ وہ میرے ساتھ کوئی ناروا سلوک کریں گے میں اللہ کی قسم ان کے پاس ضرور جاؤں گا پس حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے پاس تشریف لے گئے تو علی بن ابوطالب (رضی اللہ عنہ) نے کلمہ شہادت پڑھا پھر کہا اے ابوبکر تحقیق ہم آپ کی فضیلت پہچان چکے ہیں جو اللہ نے آپ کو عطا کی ہے ہم اسے جانتے ہیں اور جو بھلائی آپ کو عطا کی گئی ہے ہم اس کی رغبت نہیں کرتے اللہ نے آپ ہی کے سپرد کی ہے لیکن آپ نے خود ہی یہ خلافت حاصل کرلی اور ہم اپنے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت داری کی وجہ سے (خلافت) کا حق سمجھتے تھے پس اسی طرح وہ (حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے گفتگو کرتے رہے یہاں تک کہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آنکھوں میں آنسو جاری ہو گئے (جب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گفتگو کی تو کہا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے میرے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت کے ساتھ حسن سلوک کرنا اپنی قرابت سے زیادہ محبوب ہے بہرحال ان اموال کا معاملہ جو میرے اور تمہارے درمیان واقعہ ہوا ہے اس میں بھی میں نے کسی کے حق کو ترک نہیں کیا اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جس معاملہ میں جس طرح کرتے دیکھا میں نے بھی اس معاملہ کو اسی طرح سر انجام دیا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا آج سہ پہر کے وقت آپ سے بیعت کرنے کا وقت ہے حضرت ابوبکر نے ظہر کی نماز ادا کی منبر پر چڑھے اور کلمہ شہادت پڑھا اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے معاملہ اور بیعت سے رہ جانے کا قصہ اور وہ عذر بیان کیا جو حضرت علی بن ابوطالب نے ان کے سامنے پیش کیا پھر علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے استغفار کیا اور کلمہ شہادت پڑھا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق کی عظمت کا اقرار کیا اور بتایا کہ میں نے جو کچھ کیا وہ اس وجہ سے نہیں کیا کہ مجھے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت پر شک تھا اور نہ اس فضیلت سے انکار کی وجہ سے جو انہیں اللہ نے عطا کی ہے بلکہ ہم اس امر (خلافت) میں اپنا حصہ خیال کرتے تھے اور ہمارے مشورہ کے بغیر ہی حکومت بنا لی گئی جس کی وجہ سے ہمارے دلوں میں رنج پہنچا مسلمان یہ سن کو خوش ہوئے اور انہوں نے کہا آپ نے درست کیا ہے اور مسلمان پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قریب ہونے لگے جب انہوں نے اس معروف راستہ کو اختیار کر لیا۔

It is narrated on the authority of Urwa b. Zubair who narrated from A'isha that she informed him that Fatima, daughter of the Messenger of Allah (may peace be upon him), sent someone to Abu Bakr to demand from him her share of the legacy left by the Messenger of Allah (may peace be upon him) from what Allah had bestowed upon him at Medina and Fadak and what was left from one-fifth of the income (annually received) from Khaibar. Abu Bakr said: The Messenger of Allah (may peace be upon him) said: "We (prophets) do not have any heirs; what we leave behind is (to be given in) charity." The household of the Messenger of Allah (may peace be upon him) will live on the income from these properties, but, by Allah, I will not change the charity of the Messenger of Allah (may peace be upon him) from the condition in which it was in his own time. I will do the same with it as the Messenger of Allah (may peace be upon him) himself used to do. So Abu Bakr refused to hand over anything from it to Fatima who got angry with Abu Bakr for this reason. She forsook him and did not talk to him until the end of her life. She lived for six months after the death of the Messenger of Allah (may peace be upon him). When she died, her husband 'Ali b. Abu Talib, buried her at night. He did not inform Abu Bakr about her death and offered the funeral prayer over her himself. During the lifetime of Fatima, 'Ali received (special) regard from the people. After she had died, he felt estrangement in the faces of the people towards him. So he sought to make peace with Abu Bakr and offer his allegiance to him. He had not yet owed allegiance to him as Caliph during these months. He sent a person to Abu Bakr requesting him to visit him unaccompanied by anyone (disapproving the presence of Umar). 'Umar said to Abu Bakr: By Allah, you will not visit them alone. Abu Bakr said: What will they do to me? By Allah, I will visit them. And he did pay them a visit alone. 'Ali recited Tashahhud (as it is done in the beginning of a religious sermon); then said: We recognise your moral excellence and what Allah has bestowed upon you. We do not envy the favour (i. e. the Caliphate) which Allah nas conferred upon you; but you have done it (assumed the position of Caliph) alone (without consulting us), and we thought we had a right (to be consulted) on account of our kinship with the Messenger of Allah (may peace be upon him). He continued to talk to Abu Bakr (in this vein) until the latter's eyes welled up with tears. Then Abu Bakr spoke and said: By Allah, in Whose Hand is my life, the kinship of the Messenger of Allah (may peace be upon him) is dearer to me than the kinship of my own people. As regards the dispute that has arisen between you and me about these properties, I have not deviated from the right course and I have not given up doing about them what the Messenger of Allah (may peace be upon him) used to do. So 'Ali said to Abu Bakr: This afternoon is (fixed) for (swearing) allegiance (to you). So when Abu Bakr had finished his Zuhr prayer, he ascended the pulpit and recited Tashahhud, and described the status of 'Ali, his delay in swearing allegiance and the excuse which he had offered to him (for this delay). (After this) he asked for God's forgiveness. Then 'Ali b. Abu Talib recited the Tashahhud, extolled the merits of Abu Bakr and said that his action was not prompted by any jealousy of Abu Bakr on his part or his refusal to accept the high position which Allah had conferred upon him, (adding:) But we were of the opinion that we should have a share in the government, but the matter had been decided without taking us into confidence, and this displeased us. (Hence the delay in offering allegiance. The Muslims were pleased with this (explanation) and they said: You have done the right thing. The Muslims were (again) favourably inclined to 'Ali since he adopted the proper course of action.
________________________________________
Book 019, Number 4353:
It has been narrated on the authority of 'A'isha that Fatima and 'Abbas approached Abu Bakr, soliciting transfer of the legacy of the Messenger of Allah (may peace be upon him) to them. At that time, they were demanding his (Holy Prophet's) lands at Fadak and his share from Khaibar. Abu Bakr said to them: I have heard from the Messenger of Allah (may peace be upon him). Then he quoted the hadith having nearly the same meaning as the one which has been narrated by Uqail on the authority of al-Zuhri (and which his gone before) except that in his version he said: Then 'Ali stood up, extolled the merits of Abu Bakr mentioned his superiority, and his earlier acceptance of Islam. Then he walked to Abu Bakr and swore allegiance to him. (At this) people turned towards 'Ali and said: you have done the right thing. And they became favourably inclined to 'Ali after he had adopted the proper course of action.

یہ حدیث شیئر کریں