غزوئہ بدر میں فرشتوں کے ذریعہ امداد اور غنیمت کے مال کے مباح ہونے کے بیان میں
راوی: ہناد بن سری , ابن مبارک , عکرمہ بن عمار , سماک حنفی , ابن عباس , عمر بن خطاب
حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ عِکْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ حَدَّثَنِي سِمَاکٌ الْحَنَفِيُّ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ لَمَّا کَانَ يَوْمُ بَدْرٍ ح و حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَاللَّفْظُ لَهُ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ الْحَنَفِيُّ حَدَّثَنَا عِکْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنِي أَبُو زُمَيْلٍ هُوَ سِمَاکٌ الْحَنَفِيُّ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ قَالَ حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ لَمَّا کَانَ يَوْمُ بَدْرٍ نَظَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَی الْمُشْرِکِينَ وَهُمْ أَلْفٌ وَأَصْحَابُهُ ثَلَاثُ مِائَةٍ وَتِسْعَةَ عَشَرَ رَجُلًا فَاسْتَقْبَلَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقِبْلَةَ ثُمَّ مَدَّ يَدَيْهِ فَجَعَلَ يَهْتِفُ بِرَبِّهِ اللَّهُمَّ أَنْجِزْ لِي مَا وَعَدْتَنِي اللَّهُمَّ آتِ مَا وَعَدْتَنِي اللَّهُمَّ إِنْ تُهْلِکْ هَذِهِ الْعِصَابَةَ مِنْ أَهْلِ الْإِسْلَامِ لَا تُعْبَدْ فِي الْأَرْضِ فَمَا زَالَ يَهْتِفُ بِرَبِّهِ مَادًّا يَدَيْهِ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ حَتَّی سَقَطَ رِدَاؤُهُ عَنْ مَنْکِبَيْهِ فَأَتَاهُ أَبُو بَکْرٍ فَأَخَذَ رِدَائَهُ فَأَلْقَاهُ عَلَی مَنْکِبَيْهِ ثُمَّ الْتَزَمَهُ مِنْ وَرَائِهِ وَقَالَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ کَفَاکَ مُنَاشَدَتُکَ رَبَّکَ فَإِنَّهُ سَيُنْجِزُ لَکَ مَا وَعَدَکَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ أَنِّي مُمِدُّکُمْ بِأَلْفٍ مِنْ الْمَلَائِکَةِ مُرْدِفِينَ فَأَمَدَّهُ اللَّهُ بِالْمَلَائِکَةِ قَالَ أَبُو زُمَيْلٍ فَحَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ قَالَ بَيْنَمَا رَجُلٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ يَوْمَئِذٍ يَشْتَدُّ فِي أَثَرِ رَجُلٍ مِنْ الْمُشْرِکِينَ أَمَامَهُ إِذْ سَمِعَ ضَرْبَةً بِالسَّوْطِ فَوْقَهُ وَصَوْتَ الْفَارِسِ يَقُولُ أَقْدِمْ حَيْزُومُ فَنَظَرَ إِلَی الْمُشْرِکِ أَمَامَهُ فَخَرَّ مُسْتَلْقِيًا فَنَظَرَ إِلَيْهِ فَإِذَا هُوَ قَدْ خُطِمَ أَنْفُهُ وَشُقَّ وَجْهُهُ کَضَرْبَةِ السَّوْطِ فَاخْضَرَّ ذَلِکَ أَجْمَعُ فَجَائَ الْأَنْصَارِيُّ فَحَدَّثَ بِذَلِکَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ صَدَقْتَ ذَلِکَ مِنْ مَدَدِ السَّمَائِ الثَّالِثَةِ فَقَتَلُوا يَوْمَئِذٍ سَبْعِينَ وَأَسَرُوا سَبْعِينَ قَالَ أَبُو زُمَيْلٍ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَلَمَّا أَسَرُوا الْأُسَارَی قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي بَکْرٍ وَعُمَرَ مَا تَرَوْنَ فِي هَؤُلَائِ الْأُسَارَی فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ يَا نَبِيَّ اللَّهِ هُمْ بَنُو الْعَمِّ وَالْعَشِيرَةِ أَرَی أَنْ تَأْخُذَ مِنْهُمْ فِدْيَةً فَتَکُونُ لَنَا قُوَّةً عَلَی الْکُفَّارِ فَعَسَی اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُمْ لِلْإِسْلَامِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا تَرَی يَا ابْنَ الْخَطَّابِ قُلْتُ لَا وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أَرَی الَّذِي رَأَی أَبُو بَکْرٍ وَلَکِنِّي أَرَی أَنْ تُمَکِّنَّا فَنَضْرِبَ أَعْنَاقَهُمْ فَتُمَکِّنَ عَلِيًّا مِنْ عَقِيلٍ فَيَضْرِبَ عُنُقَهُ وَتُمَکِّنِّي مِنْ فُلَانٍ نَسِيبًا لِعُمَرَ فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ فَإِنَّ هَؤُلَائِ أَئِمَّةُ الْکُفْرِ وَصَنَادِيدُهَا فَهَوِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا قَالَ أَبُو بَکْرٍ وَلَمْ يَهْوَ مَا قُلْتُ فَلَمَّا کَانَ مِنْ الْغَدِ جِئْتُ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَکْرٍ قَاعِدَيْنِ يَبْکِيَانِ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخْبِرْنِي مِنْ أَيِّ شَيْئٍ تَبْکِي أَنْتَ وَصَاحِبُکَ فَإِنْ وَجَدْتُ بُکَائً بَکَيْتُ وَإِنْ لَمْ أَجِدْ بُکَائً تَبَاکَيْتُ لِبُکَائِکُمَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبْکِي لِلَّذِي عَرَضَ عَلَيَّ أَصْحَابُکَ مِنْ أَخْذِهِمْ الْفِدَائَ لَقَدْ عُرِضَ عَلَيَّ عَذَابُهُمْ أَدْنَی مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ شَجَرَةٍ قَرِيبَةٍ مِنْ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَا کَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَکُونَ لَهُ أَسْرَی حَتَّی يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ إِلَی قَوْلِهِ فَکُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلَالًا طَيِّبًا فَأَحَلَّ اللَّهُ الْغَنِيمَةَ لَهُمْ
ہناد بن سری، ابن مبارک، عکرمہ بن عمار، سماک حنفی، ابن عباس، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر کے دن مشرکین کی طرف دیکھا تو وہ ایک ہزار تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ تین سو انیس تھے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ کی طرف منہ فرما کر اپنے ہاتھوں کو اٹھایا اور اپنے رب سے پکار پکار کر دعا مانگنا شروع کر دی اے اللہ! میرے لئے اپنے کئے ہوئے وعدہ کو پورا فرمایا اے اللہ! اپنے وعدہ کے مطابق عطا فرما اے اللہ! اگر اہل اسلام کی یہ جماعت ہلاک ہوگئی تو زمین پر تیری عبادت نہ کی جائے گی آپ صلی اللہ علیہ وسلم برابر اپنے رب سے ہاتھ دراز کئے قبلہ کی طرف منہ کر کے دعا مانگتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر مبارک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شانہ سے گر پڑی پس حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر کو اٹھایا اور اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے پر ڈالا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لپٹ گئے اور عرض کیا اے اللہ کے نبی آپ کی اپنے رب سے دعا کافی ہو چکی عنقریب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے کئے ہوئے وعدے کو پورا کرے گا اللہ رب العزت نے یہ آیت نازل فرمائی (اِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ اَنِّىْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰ ى ِكَةِ مُرْدِفِيْنَ ) 8۔ الانفال : 9) جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے تو اس نے تمہاری دعا قبول کی کہ میں تمہاری مدد ایک ہزار لگاتار فرشتوں سے کروں گا پس اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرشتوں کے ذریعہ امداد فرمائی حضرت ابوزمیل نے کہا حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے یہ حدیث اس دن بیان کی جب مسلمانوں میں ایک آدمی مشرکین میں سے آدمی کے پیچھے دوڑ رہا تھا جو اس سے آگے تھا اچانک اس نے اوپر سے ایک کوڑے کی ضرب لگنے کی آواز سنی اور یہ بھی سنا کہ کوئی گھوڑ سوار یہ کہہ رہا ہے، اے حیزوم! آگے بڑھ پس اس نے اپنے آگے مشرک کی طرف دیکھا کہ وہ چت گرا پڑا ہے جب اس کی طرف غور سے دیکھا تو اس کا ناک زخم زدہ تھا اور اس کا چہرہچہرہ پھٹ چکا تھا، کوڑے کی ضرب کی طرح اور اس کا پورا جسم بند ہوچکا تھا۔ پس اس پھٹ چکا تھا پس اس انصاری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ واقعہ بیان کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو نے سچ کہا یہ مدد تیسرے آسمان سے آئی تھی پس اس دن ستر آدمی مارے گئے اور ستر قید ہوئے ابوزمیل نے کہا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا جب قیدیوں کو گرفتار کر لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے فرمایا تم ان قیدیوں کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہو حضرت ابوبکر نے عرض کیا اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہ ہمارے چچا زاد اور خاندان کے لوگ ہیں میری رائے یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے فدیہ وصول کر لیں اس سے ہمیں کفار کے خلاف طاقت حاصل ہو جائے گی اور ہو سکتا ہے کہ اللہ انہیں اسلام لانے کی ہدایت عطا فرما دیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابن خطاب آپ کی کیا رائے ہے؟ میں نے عرض کیا نہیں! اللہ کی قسم اے اللہ کے رسول میری وہ رائے نہیں جو حضرت ابوبکر کی رائے ہے بلکہ میری رائے یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ہمارے سپرد کر دیں تاکہ ہم ان کی گردنیں اڑا دیں عقیل کو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سپرد کریں، وہ اس کی گردن اڑائیں اور فلاں آدمی میرے سپرد کر دیں۔ اپنے رشتہ داروں میں سے ایک کا نام لیا تاکہ میں اس کی گردن مار دوں کیونکہ یہ کفر کے پیشوا اور سردار ہیں پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے کی طرف مائل ہوئے اور میری رائے کی طرف مائل نہ ہوئے جب آئندہ روز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں بیٹھے ہوئے تھے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول مجھے بتائیں تو سہی کس چیز نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوست کو رلا دیا پس اگر میں رو سکا تو میں بھی رؤں گا اور اگر مجھے رونا نہ آیا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں کے رونے کی وجہ سے رونے کی صورت ہی اختیار کرلوں گا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اس وجہ سے رو رہا ہوں جو مجھے تمہارے ساتھیوں سے فدیہ لینے کی وجہ سے پیش آیا ہے تحقیق مجھ پر ان کا عذاب پیش کیا گیا جو اس درخت سے بھی زیادہ قریب تھا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قربیی درخت سے بھی اور اللہ رب العزت نے یہ آیت نازل فرمائی (مَا کَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَکُونَ لَهُ) "یہ بات نبی کی شان کے مناسب نہیں ہے کہ اس کے قبضے میں قیدی رہیں (کافروں کو قتل کر کے) زمین میں کثرت سے خون (نہ) بہائے"۔ سے اللہ عزوجل کے قول "پس کھاؤ جو مال غنیمت تمہیں ملا ہے (کہ وہ تمہارے لئے) حلال طیب (ہے)۔"پس اللہ نے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے لئے غنیمت حلال کر دی۔
It has been narrated on the authority of 'Umar b. al-Khattab who said: When it was the day on which the Battle of Badr was fought, the Messenger of Allah (may peace be upon him) cast a glance at the infidels, and they were one thousand while his own Companions were three hundred and nineteen. The Holy Prophet (may peace be upon him) turned (his face) towards the Qibla, then he stretched his hands and began his supplication to his Lord: "O Allah, accomplish for me what Thou hast promised to me. O Allah, bring about what Thou hast promised to me. O Allah, if this small band of Muslims is destroyed, Thou will not be worshipped on this earth." He continued his supplication to his Lord, stretching his hands, facing the Qibla, until his mantle slipped down from his shoulders. So Abu Bakr came to him, picked up his mantle and put it on his shoulders. Then he embraced him from behind and said:. Prophet of Allah, this prayer of yours to your Lord will suffice you, and He will fulfil for you what He has promised you. So Allah, the Glorious and Exalted, revealed (the Qur'anic verse): "When ye appealed to your Lord for help, He responded to your call (saying): I will help you with one thousand angels coming in succession." So Allah helped him with angels.
Abu Zumail said that the hadith was narrated to him by Ibn 'Abbas who said: While on that day a Muslim was chasing a disbeliever who was going ahead of him, he heard over him' the swishing of the whip and the voice of the rider saying: Go ahead, Haizi'm! He glanced at the polytheist who had (now) fallen down on his back. When he looked at him (carefully he found that) there was a scar on his nose and his face was torn as if it had been lashed with a whip, and had turned green with its poison. An Ansari came to the Messenger of Allah (may peace be upon him) and related this (event) to him. He said: You have told the truth. This was the help from the third heaven. The Muslims that day (i. e. the day of the Battle of Badr) killed seventy persons and captured seventy. The Messenger of Allah (may peace be upon him) said to Abu Bakr and 'Umar (Allah be pleased with them): What is your opinion about these captives? Abu Bakr said: They are our kith and kin. I think you should release them after getting from them a ransom. This will be a source of strength to us against the infidels. It is quite possible that Allah may guide them to Islam. Then the Messenger of Allah (may peace be upon him) said: What is your opinion. Ibn Khattab? He said: Messenger of Allah. I do not hold the same opinion as Abu Bakr. I am of the opinion that you should hand them over to us so that we may cut off their heads. Hand over 'Aqil to 'Ali that he may cut off his head, and hand over such and such relative to me that I may cut off his head. They are leaders of the disbelievers and veterans among them. The Messenger of Allah (may peace be upon him) approved the opinion of Abu Bakr and did not approve what I said. The next day when I came to the Messenger of Allah (may peace be upon him), I found that both he and Abu Bakr were sitting shedding tears. I said: Messenger of Allah, why are you and your Companion shedding tears? Tell me the reason. For I will weep too, if not, I will at least pretend to weep in sympathy with you. The Messenger of Allah (may peace be upon him) said: I weep for what has happened to your companions for taking ransom (from the prisoners). I was shown the torture to which they were subjected. It was brought to me as close as this tree. (He pointed to a tree close to him.) Then God revealed the verse: "It is not befitting for a prophet that he should take prisoners until the force of the disbelievers has been crushed…" to the end of the verse: "so eat ye the spoils of war, (it is) lawful and pure. So Allah made booty lawful for them."