صحیح مسلم ۔ جلد سوم ۔ جہاد کا بیان ۔ حدیث 110

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہرقل کی طرف اسلام کی دعوت کے لئے مکتوب کے بیان میں

راوی: اسحاق بن ابراہیم حنظلی , ابن ابی عمر , محمد بن رافع , عبداللہ بن حمید , ابن رافع , ابن ابی عمر , عبدالرزاق , معمر , زہری , عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ , ابوسفیان , ابن عباس

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ وَابْنُ أَبِي عُمَرَ وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ رَافِعٍ قَالَ ابْنُ رَافِعٍ وَابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا و قَالَ الْآخَرَانِ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ أَخْبَرَهُ مِنْ فِيهِ إِلَی فِيهِ قَالَ انْطَلَقْتُ فِي الْمُدَّةِ الَّتِي کَانَتْ بَيْنِي وَبَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَبَيْنَا أَنَا بِالشَّأْمِ إِذْ جِيئَ بِکِتَابٍ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَی هِرَقْلَ يَعْنِي عَظِيمَ الرُّومِ قَالَ وَکَانَ دَحْيَةُ الْکَلْبِيُّ جَائَ بِهِ فَدَفَعَهُ إِلَی عَظِيمِ بُصْرَی فَدَفَعَهُ عَظِيمُ بُصْرَی إِلَی هِرَقْلَ فَقَالَ هِرَقْلُ هَلْ هَاهُنَا أَحَدٌ مِنْ قَوْمِ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ قَالُوا نَعَمْ قَالَ فَدُعِيتُ فِي نَفَرٍ مِنْ قُرَيْشٍ فَدَخَلْنَا عَلَی هِرَقْلَ فَأَجْلَسَنَا بَيْنَ يَدَيْهِ فَقَالَ أَيُّکُمْ أَقْرَبُ نَسَبًا مِنْ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ فَقُلْتُ أَنَا فَأَجْلَسُونِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَأَجْلَسُوا أَصْحَابِي خَلْفِي ثُمَّ دَعَا بِتَرْجُمَانِهِ فَقَالَ لَهُ قُلْ لَهُمْ إِنِّي سَائِلٌ هَذَا عَنْ الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ فَإِنْ کَذَبَنِي فَکَذِّبُوهُ قَالَ فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ وَايْمُ اللَّهِ لَوْلَا مَخَافَةُ أَنْ يُؤْثَرَ عَلَيَّ الْکَذِبُ لَکَذَبْتُ ثُمَّ قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ سَلْهُ کَيْفَ حَسَبُهُ فِيکُمْ قَالَ قُلْتُ هُوَ فِينَا ذُو حَسَبٍ قَالَ فَهَلْ کَانَ مِنْ آبَائِهِ مَلِکٌ قُلْتُ لَا قَالَ فَهَلْ کُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْکَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ قُلْتُ لَا قَالَ وَمَنْ يَتَّبِعُهُ أَشْرَافُ النَّاسِ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ قَالَ قُلْتُ بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ قَالَ أَيَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ قَالَ قُلْتُ لَا بَلْ يَزِيدُونَ قَالَ هَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَنْ دِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ سَخْطَةً لَهُ قَالَ قُلْتُ لَا قَالَ فَهَلْ قَاتَلْتُمُوهُ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَکَيْفَ کَانَ قِتَالُکُمْ إِيَّاهُ قَالَ قُلْتُ تَکُونُ الْحَرْبُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ سِجَالًا يُصِيبُ مِنَّا وَنُصِيبُ مِنْهُ قَالَ فَهَلْ يَغْدِرُ قُلْتُ لَا وَنَحْنُ مِنْهُ فِي مُدَّةٍ لَا نَدْرِي مَا هُوَ صَانِعٌ فِيهَا قَالَ فَوَاللَّهِ مَا أَمْکَنَنِي مِنْ کَلِمَةٍ أُدْخِلُ فِيهَا شَيْئًا غَيْرَ هَذِهِ قَالَ فَهَلْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ قَبْلَهُ قَالَ قُلْتُ لَا قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ قُلْ لَهُ إِنِّي سَأَلْتُکَ عَنْ حَسَبِهِ فَزَعَمْتَ أَنَّهُ فِيکُمْ ذُو حَسَبٍ وَکَذَلِکَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي أَحْسَابِ قَوْمِهَا وَسَأَلْتُکَ هَلْ کَانَ فِي آبَائِهِ مَلِکٌ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا فَقُلْتُ لَوْ کَانَ مِنْ آبَائِهِ مَلِکٌ قُلْتُ رَجُلٌ يَطْلُبُ مُلْکَ آبَائِهِ وَسَأَلْتُکَ عَنْ أَتْبَاعِهِ أَضُعَفَاؤُهُمْ أَمْ أَشْرَافُهُمْ فَقُلْتَ بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ وَهُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ وَسَأَلْتُکَ هَلْ کُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْکَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا فَقَدْ عَرَفْتُ أَنَّهُ لَمْ يَکُنْ لِيَدَعَ الْکَذِبَ عَلَی النَّاسِ ثُمَّ يَذْهَبَ فَيَکْذِبَ عَلَی اللَّهِ وَسَأَلْتُکَ هَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَنْ دِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَهُ سَخْطَةً لَهُ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا وَکَذَلِکَ الْإِيمَانُ إِذَا خَالَطَ بَشَاشَةَ الْقُلُوبِ وَسَأَلْتُکَ هَلْ يَزِيدُونَ أَوْ يَنْقُصُونَ فَزَعَمْتَ أَنَّهُمْ يَزِيدُونَ وَکَذَلِکَ الْإِيمَانُ حَتَّی يَتِمَّ وَسَأَلْتُکَ هَلْ قَاتَلْتُمُوهُ فَزَعَمْتَ أَنَّکُمْ قَدْ قَاتَلْتُمُوهُ فَتَکُونُ الْحَرْبُ بَيْنَکُمْ وَبَيْنَهُ سِجَالًا يَنَالُ مِنْکُمْ وَتَنَالُونَ مِنْهُ وَکَذَلِکَ الرُّسُلُ تُبْتَلَی ثُمَّ تَکُونُ لَهُمْ الْعَاقِبَةُ وَسَأَلْتُکَ هَلْ يَغْدِرُ فَزَعَمْتَ أَنَّهُ لَا يَغْدِرُ وَکَذَلِکَ الرُّسُلُ لَا تَغْدِرُ وَسَأَلْتُکَ هَلْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ قَبْلَهُ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا فَقُلْتُ لَوْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ قَبْلَهُ قُلْتُ رَجُلٌ ائْتَمَّ بِقَوْلٍ قِيلَ قَبْلَهُ قَالَ ثُمَّ قَالَ بِمَ يَأْمُرُکُمْ قُلْتُ يَأْمُرُنَا بِالصَّلَاةِ وَالزَّکَاةِ وَالصِّلَةِ وَالْعَفَافِ قَالَ إِنْ يَکُنْ مَا تَقُولُ فِيهِ حَقًّا فَإِنَّهُ نَبِيٌّ وَقَدْ کُنْتُ أَعْلَمُ أَنَّهُ خَارِجٌ وَلَمْ أَکُنْ أَظُنُّهُ مِنْکُمْ وَلَوْ أَنِّي أَعْلَمُ أَنِّي أَخْلُصُ إِلَيْهِ لَأَحْبَبْتُ لِقَائَهُ وَلَوْ کُنْتُ عِنْدَهُ لَغَسَلْتُ عَنْ قَدَمَيْهِ وَلَيَبْلُغَنَّ مُلْکُهُ مَا تَحْتَ قَدَمَيَّ قَالَ ثُمَّ دَعَا بِکِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَرَأَهُ فَإِذَا فِيهِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ إِلَی هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ سَلَامٌ عَلَی مَنْ اتَّبَعَ الْهُدَی أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي أَدْعُوکَ بِدِعَايَةِ الْإِسْلَامِ أَسْلِمْ تَسْلَمْ وَأَسْلِمْ يُؤْتِکَ اللَّهُ أَجْرَکَ مَرَّتَيْنِ وَإِنْ تَوَلَّيْتَ فَإِنَّ عَلَيْکَ إِثْمَ الْأَرِيسِيِّينَ وَ يَا أَهْلَ الْکِتَابِ تَعَالَوْا إِلَی کَلِمَةٍ سَوَائٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَکُمْ أَنْ لَا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِکَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قِرَائَةِ الْکِتَابِ ارْتَفَعَتْ الْأَصْوَاتُ عِنْدَهُ وَکَثُرَ اللَّغْطُ وَأَمَرَ بِنَا فَأُخْرِجْنَا قَالَ فَقُلْتُ لِأَصْحَابِي حِينَ خَرَجْنَا لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِي کَبْشَةَ إِنَّهُ لَيَخَافُهُ مَلِکُ بَنِي الْأَصْفَرِ قَالَ فَمَا زِلْتُ مُوقِنًا بِأَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ سَيَظْهَرُ حَتَّی أَدْخَلَ اللَّهُ عَلَيَّ الْإِسْلَامَ

اسحاق بن ابراہیم حنظلی، ابن ابی عمر، محمد بن رافع، عبداللہ بن حمید، ابن رافع، ابن ابی عمر، عبدالرزاق، معمر، زہری، عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ، ابوسفیان، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت ابوسفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے روبرو خبر دی کہ میں اپنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان مدت معاہدہ کے دوران شام کی طرف چلا ہم شام میں قیام پذیر تھے کہ اسی دوران شام کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط لایا گیا جسے حضرت دحیہ کلبی لائے تھے پس انہوں نے یہ بصریٰ کے گورنر کے سپرد کیا اور بصریٰ کے گورنر نے وہ خط ہرقل کو پیش کیا تو ہرقل نے کہا کیا یہاں کوئی آدمی اس کی قوم کا آیا ہوا ہے جس نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ نبی ہے لوگوں نے کہا جی ہاں چنانچہ مجھے قریش کے چند آدمیوں کے ساتھ بلایا گیا ہم ہرقل کے پاس پہنچے تو اس نے ہمیں اپنے سامنے بٹھایا پھر کہا تم میں کون نسب کے اعتبار سے اس آدمی کے قریب ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ نبی ہے؟ ابوسفیان کہتے ہیں میں نے کہا میں ہوں تو اس نے مجھے اپنے سامنے اور میرے ساتھیوں کو میرے پیچھے بٹھا دیا پھر اپنے ترجمان کو بلایا پھر اس سے کہا ان سے کہو میں اس آدمی کے بارے میں پوچھنے والا ہوں جس کا گمان ہے کہ وہ نبی ہے پس اگر یہ مجھ سے جھوٹ بولے تو تم اس کی تکذیب کرنا ابوسفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اللہ کی قسم اگر مجھے اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ یہ مجھے جھوٹا کہیں گے تو میں ضرور جھوٹ بولتا پھر ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا کہ اس سے پوچھو کہ اس کا خاندان تم میں کیسا ہے؟ میں نے کہا وہ ہم میں نہایت شریف النسب ہے کیا اس کے آباؤ اجداد میں سے کوئی بادشاہ بھی تھا؟ میں نے کہا نہیں ہرقل نے کہا کیا تم اسے اس بات کا دعوی کرنے سے پہلے جھوٹ سے متہم کرتے تھے؟ میں نے کہا نہیں ہرقل نے کہا اس کی اتباع کرنے والے بڑے بڑے لوگ ہیں یا کمزور و غریب؟ میں نے کہا بلکہ وہ کمزور لوگ ہیں۔ اس نے کہا وہ بڑھ رہے ہیں یا کم ہو رہے ہیں ؟ میں نے کہا: نہیں بلکہ وہ بڑھ رہے ہیں ۔ اس نے کہا کیا ان میں سے کوئی اپنے دین سے اس کے دین میں داخل ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ناراضگی کی وجہ سے پھر بھی گیا ہے؟ میں نے کہا نہیں اس نے کہا کیا تم نے اس سے کوئی جنگ بھی کی؟ میں نے کہا جی ہاں ہرقل نے کہا اس سے تمہاری جنگ کا نتیجہ کیا رہا؟ میں نے کہا جنگ ہمارے اور ان کے درمیان ایک ڈول رہی کبھی انہوں نے ہم سے کھینچ اور کبھی ہم نے ان سے کھینچ لیا اس نے کہا کیا وہ معاہدہ کی خلاف ورزی بھی کرتا ہے؟ میں نے کہا نہیں اور ہم اس سے ایک معاہدہ میں ہیں ہم نہیں جانتے وہ اس بارے میں کیا کرنے والے ہیں ابوسفیان کہنے لگے اللہ کی قسم اس نے مجھے اس ایک کلمہ کے سوا کوئی بات اپنی طرف سے شامل کرنے کی گنجائش ہی نہیں دی ہرقل نے کہا کیا اس سے پہلے کسی اور نے بھی اس کے خاندان سے اس بات کا دعوی کیا ہے؟ میں نے کہا نہیں اس نے اپنے ترجمان سے کہا اس سے کہو میں نے تجھ سے اس کے خاندان کے بارے میں پوچھا اور تیرا گمان ہے کہ وہ تم میں سے اچھے خاندان والا ہے اور رسولوں کو اسی طرح اپنی قوم کے اچھے خاندانوں سے بھیجا جاتا ہے اور میں نے تجھ سے پوچھا کیا اس کے آباؤ اجداد میں کوئی بادشاہ گزرا ہے اور تیرا خیال ہے کہ نہیں تو میں کہتا ہوں اگر اس کے آباو اجداد میں کوئی بادشاہ ہوتا تو میں کہتا کہ وہ ایسا آدمی ہے جو اپنے آباؤ اجداد کی بادشاہت کا طالب ہے اور میں نے تجھ سے اس کی پیروی کرنے والوں کے بارے میں پوچھا کیا وہ ضعیف طبقہ کے لوگ ہیں یا بڑے آدمی ہیں تو نے کہا بلکہ وہ کمزور ہیں اور یہی لوگ رسولوں کے پیروگار ہوتے ہیں اور میں نے تجھ سے پوچھا کیا تم اسے اس دعوی سے قبل جھوٹ سے بھی متہم کرتے تھے اور تو نے کہا نہیں تو میں نے پہچان لیا جو لوگوں پر جھوٹ نہیں باندھتا وہ اللہ پر جھوٹ باندھنے کا ارتکاب کیسے کر سکتا ہے اور میں نے تجھ سے پوچھا کیا ان لوگوں میں سے کوئی دین میں داخل ہونے کے بعد ان سے ناراضگی کی وجہ سے پھر بھی گیا ہے تو نے کہا نہیں اور اسی طرح ایمان کی حلاوت ہوتی ہے جب دل اس سے لطف اندوز ہو جائیں اور میں نے تجھ سے پوچھا کیا وہ بڑھ رہے ہیں یا کم ہو رہے ہیں تو نے کہا کہ وہ بڑھ رہے ہیں تو حقیقت میں ایمان کے درجہ تکمیل تک پہنچنے میں یہی کیفیت ہوتی ہے میں نے تجھ سے پوچھا کیا تم نے اس سے کوئی جنگ بھی کی اور تو نے کہا ہم اس سے جنگ کر چکے ہیں اور جنگ تمہارے اور اس کے درمیان ڈول کی طرح ہے کبھی وہ تم پر غالب اور کبھی تم اس پر غالب رہے اور رسولوں کو اسی طرح مبتلا رکھا جاتا ہے پھر آخر انجام فتح انہی کی ہوتی ہے اور میں نے تجھ سے پوچھا کیا اس نے معاہدہ کی خلاف ورزی بھی کی؟ تو نے کہا: نہیں اور رسل علیہم السلام اسی طرح عہد شکنی نہیں کرتے اور میں نے تجھ سے پوچھا کیا یہ دعوی اس سے پہلے بھی کسی نے کیا تو تم نے کہا نہیں تو میں کہتا ہوں اگر یہ دعوی اس سے پہلے کیا جاتا تو کہتا ہے یہ ایسا آدمی ہے جو اپنے سے پہلے کئے گئے دعوی کی تکمیل کر رہا ہے ابوسفیان نے کہا پھر ہرقل نے کہا وہ تمہیں کس بات کا حکم دیتے ہیں میں نے کہا وہ ہمیں نماز، زکوۃ، صلہ رحمی اور پاک دامنی کا حکم دیتے ہیں ہرقل نے کہا جو کچھ تم کہہ رہے ہو اگر یہ سچ ہے تو وہ واقعتا نبی ہے اس نے کہا میں جانتا تھا کہ اس کا ظہور تم میں سے ہوگا اور اگر مجھے معلوم ہوتا کہ میں ان تک پہنچ جاؤں گا تو میں ان کی ملاقات کو پسند کرتا اور اگر میں ان کے پاس ہوتا تو میں ان کے پاؤں مبارک دھوتا اور ان کی بادشاہت ضرور بالضرور میرے قدموں کے نیچے پہنچ جائے گی پھر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط مبارک منگوا کر پڑھا تو اس میں یہ تھا بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے(یہ خط) بادشاہ روم ہرقل کی طرف۔ اس پر سلامتی ہو جس نے ہدایت کا اتباع کیا۔ اما بعد میں تجھے اسلام کی دعوت دیتا ہوں اسلام قبول کرلو سلامت رہو گے اور اسلام قبول کر لے اللہ تجھے دوہرا ثواب عطا کرے گا اور اگر تم نے اعراض کیا تو رعایا کا گناہ بھی تجھ پر ہوگا اور اے اہل کتاب آؤ اس بات کی طرف جو تمہارے اور ہمارے درمیان برابر(مطفق) ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت کریں اور نہ اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک کریں گے اور نہ ہمارے بعض دوسرے بعض کو اللہ کے سوا رب بنائیں گے پس اگر وہ اعراض کریں تو تم کہہ دو گواہ ہو جاؤ کہ ہم مسلمان ہیں۔ جب خط کے پڑھنے سے فارغ ہوا تو اس کے سامنے چیخ و پکار ہونے لگی اور بکثرت آوازیں آنا شروع ہو گئیں اور اس نے ہمیں باہر لے جانے کا حکم دیا میں نے اپنے ساتھیوں سے اس وقت کہا جب کہ ہمیں نکالا گیا کہ اب تو ابن ابی کبشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات بہت بڑھ گئی ہے کہ اس سے تو شاہ روم بھی خوف کرتا ہے اور اسی وقت سے مجھے ہمیشہ یہ یقین رہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عنقریب غالب ہوں گے حتی کہ رب العزت نے اپنی رحمت سے مجھے اسلام میں داخل کر دیا۔

It has been narrated on the authority of Ibn Abbas who learnt the tradition personally from Abu Safyan. The latter said: I went out (on a mercantile venture) during the period (of truce) between me and the Messenger of Allah (may peace be upon him). While I was in Syria, the letter of the Messenger of Allah (may peace be upon him) was handed over to Hiraql (Ceasar), the Emperor of Rome (who was on a visit to Jerusalem at that time). The letter was brought by Dihya Kalbi who delivered it to the governor of Busra. The governor passed it on to Hiraql, (On receiving the letter), he said: Is there anyone from the people of this man who thinks that he is a prophet. People said: Yes. So, I was called along with a few others from the Quraish. We were admitted to Hiraql and he seated us before him. He asked: Which of you has closer kinship with the man who thinks that he is a prophet? Abu Sufyan said: I. So they seated me in front of him and stated my companions behind me. Then, he called his interpreter and said to him: Tell them that I am going to ask this fellow (i. e. Abu Sufyan) about the man who thinks that he is a prophet. It he tells me a lie, then refute him.
Abu Sufyan told (the narrator): By God, if there was not the fear that falsehood would be imputed to me I would have lied. (Then) Hiraqi said to his interpreter: Inquire from him about his ancestry, I said: He is of good ancestry among us. He asked: Has there been a king among his ancestors? I said: No. He asked: Did you accuse him of falsehood before he proclaimed his prophethood? I said: No. He asked: Who are his follower people of high status or low status? I said: (They are) of low status. He asked: Are they increasing in number or decreasing? I said. No they are rather increasing. He asked: Does anyone give up his religion, being dissatisfied with it, after having embraced it? I said: No. He asked: Have you been at war with him? I said: Yes. He asked: How did you fare in that war? I said: The war between us and him has been wavering like a bucket, up at one turn and down at the other (i. e. the victory has been shared between us and him by turns). Sometimes he suffered loss at our hands and sometimes we suffered loss at his (hand). He asked: Has he (ever) violated his covenant? I said: No. but we have recently concluded a peace treaty with him for a period and we do not know what he is going to do about it. (Abu Sufyan said on oath that he could not interpolate in this dialogue anything from himself more than these words). He asked: Did anyone make the proclamation (Of prophethood) before him? I said: No. He (now) said to his interpreter: Tell him, I asked him about his ancestry and he had replied that he had the best ancestry. This is the case with Prophets; they are the descendants of the noblest among their people (Addressing Abu Sufyan), he continued: I asked you if there had been a king among his ancestors. You said that there had been none. If there had been a king among his ancestors, I would have said that he was a man demanding his ancestral kingdom. I asked you about his followers whether they were people of high or low status, and you said that they were of rather low status. Such are the followers of the Prophets. I asked you whether you used to accuse him of falsehood before he proclaimed his prophethood, and you said that you did not.
So I have understood that when he did not allow himself to tell a lie about the poeple, he would never go to the length of forging a falsehood about Allah. I asked you whether anyone renounced his religion being dissatisfied with it after he had embraced it, and you replied in the negative. Faith is like this when it enters the depth of the heart (it perpetuates them). I asked you whether his followers were increasing or decreasing. You said they were increasing. Faith is like this until it reaches its consummation. I asked you whether you had been at war with him, and you replied that you had been and that the victory between you and him had been shared by turns, sometimes he suffering loss at your hand and sometimes you suffering lost at his. This is how the Prophets are tried before the final victory is theirs. I asked you whether he (ever) violated his covenant, and you said that he did not. This is how the Prophets behave. They never violate (their covenants). I asked you whether anyone before him had proclaimed the same thing, and you replied in the negative. I said: If anyone had made the same proclamation before, I would have thought that he was a man following what had been proclaimed before. (Then) he asked: What does he enjoin upon you? I said: He exhorts us to offer Salat, to pay Zakat, to show due regard to kinship and to practise chastity. He said: If what you have told about him is true, he is certainly a Prophet. I knew that he was to appear but I did not think that he would be from among you. If I knew that I would be able to reach him, I would love to meet him; and if I had been with him. I would have washed his feet (out of reverence). His dominion would certainly extend to this place which is under my feet. Then he called for the letter of the Messenger of Allah (may peace be upon him) and read it. The letter ran as follows: "In the name of Allah, Most Gracious and Most Merciful. From Muhammad, the Messenger of Allah, to Hiraql, the Emperor of the Romans. Peace be upon him who follows the guidance. After this, I extend to you the invitation to accept Islam. Embrace Islam and you will be safe. Accept Islam, God will give you double the reward. And if you turn away, upon you will be the sin of your subjects." O People of the Book, come to the word that is common between us that we should worship none other than Allah, should not ascribe any partner to Him and some of us should not take their fellows as Lords other than Allah. If they turn away, you should say that we testify to our being Muslims [iii. 64]."
When he had finished reading the letter, noise and confused clamour was raise around him, and he ordered us to leave. Accordingly, we left. (Addressing my companions) while we were coming out (of the place). I said: Ibn Abu Kabsha (referring sarcastically to the Holy Prophet) has come to wield a great power. Lo! (even) the king of the Romans is afraid of him. I continued to believe that the authority of the Messenger of Allah (may peace be upon him) would triumph until God imbued me with (the spirit of) Islam.

یہ حدیث شیئر کریں