سچ بولو، امانت ادا کرو، اور پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو
راوی:
عن عبد الرحمن بن أبي قراد أن النبي صلى الله عليه وسلم توضأ يوما فجعل أصحابه يتمسحون بوضوئه فقال لهم النبي صلى الله عليه وسلم ما يحملكم على هذا ؟ قالوا حب الله ورسوله . فقال النبي صلى الله عليه وسلم من سره أن يحب الله ورسوله أويحبه الله ورسوله فليصدق حديثه إذا حدث وليؤد أمانته إذا اؤتمن وليحسن جوار من جاوره
" حضرت عبدالرحمن ابن ابی قراد سے روایت ہے کہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا تو صحابہ نے حضور کے وضو کے پانی کو اپنے جسم پر ملنا شروع کر دیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر فرمایا تم یہ جو کچھ کر رہے ہو اس کا سبب کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کی محبت اس کا باعث ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کریں تو اس کو چاہیے کہ جب بولے تو سچ بولے جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس امانت کو ادا کرے اور پڑوسیوں کے ساتھ اچھی ہمسائیگی کا ثبوت دے۔
تشریح
" وضو کا پانی" سے مراد اکثر علماء کے نزدیک تو وہ پانی ہے جو وضو کرنے کے بعد برتن میں بچ گیا تھا اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ پانی ہے جو وضو کے وقت حضور کے اعضاء مبارک سے جدا ہو کر گر رہا تھا ۔
" اویحبہ اللہ ورسولہ " میں حرف اَو تنویع کے لئے ہے! واضح رہے کہ ایک درجہ تو بندہ کا اللہ و رسول سے محبت رکھنا ہے اور دوسرا درجہ اللہ و رسول کا بندہ سے محبت رکھنا ہے ظاہر ہے کہ دوسرا درجہ پہلے درجہ سے کہیں بالا ہے لیکن حقیقت میں دونوں درجے ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں بایں طور کہ ہر کوئی اپنے دوست دار کو دوست رکھتا ہے یا یہ کہ حرف او در اصل لفظ بل کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے اس صورت میں ترجمہ یوں ہوگا کہ جو شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھے بلکہ جو شخص پسند کرتا ہو کہ اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرے تو اس کو چاہیے کہ ۔ ۔ ۔ الخ۔ ۔ یہ قول زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے ایک احتمال یہ بھی ہے کہ حرف اَو راوی کے شک کو ظاہر کرتا ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں یا تو یہ فرمایا تھا کہ جو شخص اللہ کے رسول سے محبت رکھنا چاہتا ہو یا یہ فرمایا تھا کہ جو شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اللہ اور اللہ کا رسول اسے محبت کرے ۔ بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا حاصل یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت کا دعوی ایسی باتوں کے ذریعہ کرنا کہ جو نفس پر چنداں شاق نہیں، کوئی حثییت نہیں رکھتا بلکہ اس دعوے کے ثبوت کے لئے ضروری ہے کہ اللہ اور اس کے رسول نے جن چیزوں کے اختیار کرنے کا حکم دیا ہے ان کو اختیار کیا جائے اور جن چیزوں سے منع کیا ہے ان سے اجتناب کیا جائے خصوصا ان احکام پر زیادہ توجہ و مستعدی اور زیادہ پابندی کے ساتھ عمل کیا جائے جن کا تعلق لوگوں کے حقوق اور باہمی معاملات سے اور حقوق و معاملات بھی وہ کہ جن سے اکثر و بیشتر واسطہ رہتا ہے جیسے سچ بولنا، اور امانت کو ادا کرنا اور پڑوسیوں کے ساتھ اچھے سلوک اور آداب ہمسائیگی کو لازم پکڑنا۔ احتمال یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شاید ان صحابہ کو مذکورہ بالا چیزوں کے تعلق سے ادائے حقوق کی کسی تقصیر و کوتاہی میں مبتلا پایا ہو گا اس لئے خاص طور پر آپ نے ان ہی چیزوں کا ذکر فرمایا۔