حقوق ہمسائیگی کی اہمیت
راوی:
وعن عقبة بن عامر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أول خصمين يوم القيامة جاران . رواه أحمد
" اور حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا قیامت کے دن سب سے پہلے دو جھگڑنے والے دو ہمسایہ ہوں گے۔ (احمد)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن اہل دوزخ کے بعد حقوق کی عدم ادئیگی سے متعلق جو معاملہ سب سے پہلے پیش کیا جائے گا وہ ان دو ہمسایوں کا ہوگا جنہیں آپس میں ایک دوسرے سے ایذا رسانی یا حقوق واجب الادا میں تقصیر و کوتاہی وغیرہ سے دوچار ہونا پڑا ہوگا۔ واضح رہے کہ ایک روایت میں یوں فرمایا گیا ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے جس محاسبہ کا سامنا کرنا پڑے گا وہ نماز ہے نیز ایک روایت میں یہ منقول ہے کہ قیامت کے دن بندہ کے سب سے پہلے جس معاملہ کا فیصلہ کیا جائے گا وہ خون کا معاملہ ہے اور مذکورہ بالا روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے جس معاملہ کا فیصلہ کیا جائے گا وہ ہمسایوں کی مخاصمت کا ہوگا چونکہ ان روایتوں میں بظاہر تضاد نظر آتا ہے اس لئے علماء نے ان تمام روایتوں کے درمیان تطبیق دی ہے حقوق اللہ کے سلسلہ میں سب سے پہلے خون کے معاملہ کا فیصلہ کیا جائے گا کیونکہ کسی کو ناحق خون بہانا بہت بڑا گناہ ہے رہی مذکوہ بالا حدیث تو لفظ خصمین کے ذریعہ یہ بات خود بخود واضح ہو جاتی ہے کہ یہ حدیث دونوں فریق کے ایک دوسرے کے خلاف دعوی رکھنے کے ساتھ مقید ہے یعنی جو لوگ ایسے ہیں ان میں سے ہر ایک نے دوسرے کے حقوق کی ادئیگی میں کوتاہی کا تعلق دونوں فریق سے نہ ہو بلکہ کسی ایک سے ہو تو اس صورت میں کہا جائے گا کہ دونوں فریق پر خصمین کا اطلاق بطریق تغلیب اور مشاکلت کے ہے جیسا کہ قرآن کے یہ الفاظ، آیت (وجزاء سیئیۃ سیئتہ مثلھا)۔ اس کی مثال حاصل یہ ہے کہ مذکورہ بالا روایتوں میں جن معاملات کا ذکر کیا گیا ہے ان میں ہر ایک میں اولیت اضافی ہے جس کی وجہ سے حقیقی طور پر کوئی باہمی تضاد لازم نہیں آتا۔