تفسیر سورت یٰسین اور مجاہد نے کہا کہ "فعززنا " کے معنی شددنا یعنی ہم نے قوت دی "یاحسرۃ علی العباد" افسوس ہے ان بندوں پر جنہوں نے رسولوں کا مذاق اڑایا " ان تدرک القمر" ان میں ایک کی روشنی دوسرے کی روشنی کو نہ چھپائے گی اور نہ ان کے لئے یہ مناسب ہے "سابق النھار" دونوں ایک دوسرے کو طلب کرتیہوئے آگے پیچھے دوڑتیہیں "نسلخ" ہم ان میں سے ایک کو دوسرے سے نکالتے ہیں اور ان دونوں میں سے ہر ایک چلتا رہتا ہے "من مثلہ" یعنی چوپائے کی طرح "فکھون" خوش و خرم "جند محضرون" حساب کے وقت فوج حاضر کی جائے گی عکرمہ سے منقول ہے کہ "مشحون" بھری ہوئی کو کہتے ہیں ابن عباس نے کہا کہ "طائر کم" سے مراد تمہاری مصیبتیں ہیں "ینسلون" باہر نکل پڑیں گے "مرقدنا " ہمارے نکلنے کی جگہ " احصیناہ" ہم نے اس کو محفوظ کر لیا اور "مکانتھم اور مکانھم" کے ایک ہی معنی ہیں اور سورج اپنے مقررہ راسۃ پر گردش کرتا ہے یہ اس کا مقرر کردہ انداز ہے جو قوی اور جاننے والا ہے ۔
راوی: حمیدی , وکیع , اعمش , ابراہیم تیمی , اپنے والد سے , وہ ابوذر
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ حَدَّثَنَا وَکِيعٌ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ قَوْلِهِ تَعَالَی وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا قَالَ مُسْتَقَرُّهَا تَحْتَ الْعَرْشِ
حمیدی، وکیع، اعمش، ابراہیم تیمی اپنے والد سے، وہ حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آیت (وَالشَّمْسُ تَجْرِيْ لِمُسْتَ قَرٍّ لَّهَا ذٰلِكَ تَ قْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِ يْمِ ) 36۔یس : 38) کے متعلق پوچھا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا مستقر عرش کے نیچے سے ہے۔
Narrated Abu Dharr:
I asked the Prophet about the Statement of Allah:–
'And the sun runs on fixed course for a term (decreed), ' (36.38) He said, "Its course is underneath "Allah's Throne." (Prostration of Sun trees, stars. mentioned in Qur'an and Hadith does not mean like our prostration but it means that these objects are obedient to their Creator (Allah) and they obey for what they have been created for).