صلح حدیبیہ کے بیان میں
راوی: ابوبکر بن ابی شیبہ , عبداللہ بن نمیر , عبدالعزیز بن سیاہ , حبیب بن ابی ثابت ابووائل
حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ح و حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ سِيَاهٍ حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ عَنْ أَبِي وَائِلٍ قَالَ قَامَ سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ يَوْمَ صِفِّينَ فَقَالَ أَيُّهَا النَّاسُ اتَّهِمُوا أَنْفُسَکُمْ لَقَدْ کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ وَلَوْ نَرَی قِتَالًا لَقَاتَلْنَا وَذَلِکَ فِي الصُّلْحِ الَّذِي کَانَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ الْمُشْرِکِينَ فَجَائَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَأَتَی رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَسْنَا عَلَی حَقٍّ وَهُمْ عَلَی بَاطِلٍ قَالَ بَلَی قَالَ أَلَيْسَ قَتْلَانَا فِي الْجَنَّةِ وَقَتْلَاهُمْ فِي النَّارِ قَالَ بَلَی قَالَ فَفِيمَ نُعْطِي الدَّنِيَّةَ فِي دِينِنَا وَنَرْجِعُ وَلَمَّا يَحْکُمِ اللَّهُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ فَقَالَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ وَلَنْ يُضَيِّعَنِي اللَّهُ أَبَدًا قَالَ فَانْطَلَقَ عُمَرُ فَلَمْ يَصْبِرْ مُتَغَيِّظًا فَأَتَی أَبَا بَکْرٍ فَقَالَ يَا أَبَا بَکْرٍ أَلَسْنَا عَلَی حَقٍّ وَهُمْ عَلَی بَاطِلٍ قَالَ بَلَی قَالَ أَلَيْسَ قَتْلَانَا فِي الْجَنَّةِ وَقَتْلَاهُمْ فِي النَّارِ قَالَ بَلَی قَالَ فَعَلَامَ نُعْطِي الدَّنِيَّةَ فِي دِينِنَا وَنَرْجِعُ وَلَمَّا يَحْکُمِ اللَّهُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ فَقَالَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ إِنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ وَلَنْ يُضَيِّعَهُ اللَّهُ أَبَدًا قَالَ فَنَزَلَ الْقُرْآنُ عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْفَتْحِ فَأَرْسَلَ إِلَی عُمَرَ فَأَقْرَأَهُ إِيَّاهُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَوْ فَتْحٌ هُوَ قَالَ نَعَمْ فَطَابَتْ نَفْسُهُ وَرَجَعَ
ابوبکر بن ابی شیبہ، عبداللہ بن نمیر، عبدالعزیز بن سیاہ، حبیب بن ابی ثابت حضرت ابووائل سے روایت ہے کہ صفین کے دن حضرت سہل بن حنیف کھڑے ہوئے اور کہا اے لوگو! اپنے آپ کو غلط تصور کرو تحقیق! ہم حدیبیہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے اگر ہم جنگ کرنا چاہتے تو ضرور کرتے اور یہ اس صلح کا واقعہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین کے درمیان ہوئی حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں نہیں عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کیا ہمارے شہداء جنت میں اور ان کے مقتول جہنم میں نہیں ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں نہیں عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا پھر ہم اپنے دین میں جھکاؤ اور ذلت کیوں قبول کریں اور حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ کا حکم نہیں دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے ابن خطاب میں اللہ کا رسول ہوں اللہ مجھے کبھی بھی ضائع نہیں فرمائے گا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صبر نہ ہوسکا اور غصہ ہی کی حالت میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور کہا اے ابوبکر! کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ہیں؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ کہنے لگے کیا ہمارے شہداء جنت میں اور ان کے مقتول جہنم میں نہیں ہیں؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں، عمر (رضی اللہ عنہ ) کہنے لگے پھر ہم کس وجہ سے اپنے دین میں کمزوری قبول کریں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارا اور ان کے درمیان فیصلہ کا حکم نہیں دیا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اے ابن خطاب! آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اللہ انہیں کبھی بھی ضائع نہیں کرے گا۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سورت فتح نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلوایا اور انہیں سے وہ آیات پڑھوائیں تو انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا یہ فتح ہے آپ نے فرمایا جی ہاں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ دلی طور پر خوش ہو کر لوٹ گئے۔
It has been narrated on the authority of Abu Wa'il who said: Sahal b. Hunaif stood up on the Day of Siffin and said: O ye people, blame yourselves (for want of discretion); we were with the Messenger of Allah (may peace be upon him) on the Day of Hudaibiya. If we had thought it fit to fight, we could fight. This was in the truce between the Messenger of Allah (may peace be upon him) and the polytheists. Umar b. Khattab came, approached the Messenger of Allah (may peace be upon him) and said: Messenger of Allah, aren't we fighting for truth and they for falsehood? He replied: By all means. He asked: Are not those killed from our side in Paradise and those killed from their side in the Fire? He replied: Yes. He said: Then why should we put a blot upon our religion and return, while Allah has not decided the issue between them and ourselves? He said: Son of Khattab, I am the Messenger of Allah. Allah will never ruin me. (The narrator said): Umar went away, but he could not contain himself with rage. So he approached Abu Bakr and said: 'Abu Bakr, aren't we fighting for truth and they for falsehood? He replied: Yes. He asked: Aren't those killed from our side in Paradise and those killed from their side in the Fire? He replied: Why not? He (then) said: Why should we then disgrace our religion and return while God has not yet decided the issue between them and ourselves? Abu Bakr said: Son of Khattab, verily, he is the Messenger of Allah, and Allah will never ruin him. (The narrator continued): At this (a Sura of) the Qur'an (giving glad tidings of the victory) was revealed to the Messenger of Allah (may peace be upon him). He sent for Umar and made him read it. He asked: Is (this truce) a victory? He (the Messenger of Allah) replied: Yes. At this Umar was pleased, and returned.