جہاد سے فرار
راوی: ابن ابی عمر , سفیان , یزید بن ابوزیاد , عبدالرحمن بن ابی لیلی , ابن عمر
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَرِيَّةٍ فَحَاصَ النَّاسُ حَيْصَةً فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ فَاخْتَبَيْنَا بِهَا وَقُلْنَا هَلَکْنَا ثُمَّ أَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ نَحْنُ الْفَرَّارُونَ قَالَ بَلْ أَنْتُمْ الْعَکَّارُونَ وَأَنَا فِئَتُکُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ وَمَعْنَی قَوْلِهِ فَحَاصَ النَّاسُ حَيْصَةً يَعْنِي أَنَّهُمْ فَرُّوا مِنْ الْقِتَالِ وَمَعْنَی قَوْلِهِ بَلْ أَنْتُمْ الْعَکَّارُونَ وَالْعَکَّارُ الَّذِي يَفِرُّ إِلَی إِمَامِهِ لِيَنْصُرَهُ لَيْسَ يُرِيدُ الْفِرَارَ مِنْ الزَّحْفِ
ابن ابی عمر، سفیان، یزید بن ابوزیاد، عبدالرحمن بن ابی لیلی، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں ایک لشکر میں بھیجا لیکن ہم لوگ میدان جنگ میں سے بھاگ کھڑے ہوئے اور جب مدینہ واپس آئے تو شرم کے مارے چھپتے پھرتے اور کہتے ہم ہلاک ہوگئے پھر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم بھاگنے والے ہیں۔ آپ نے فرمایا نہیں تم بلکہ لوگ دوبارہ پلٹ کر حملہ کرنے والے ہو (یعنی اپنے سردار سے مدد لینے کے بعد) اور میں تم لوگوں کو مدد فراہم کرنے والا ہوں۔ یہ حدیث حسن ہے ہم اسے صرف یزید بن ابوزادہ کی روایت سے جانتے ہیں ( فَحَاصَ النَّاسُ حَيْصَةً) کا مطلب یہ ہے کہ وہ لڑائی سے بھاگ کھڑے ہوں اور (بَلْ أَنْتُمْ الْعَکَّارُونَ) عکار وہ شخص ہے جو حصول مدد کے لئے اپنے امام کی طرف بھاگ کھڑا ہو اس سے مراد لڑائی سے بھاگنا نہیں۔
Sayyidina Ibn Umar narrated: Allah’s Messenger (SAW) sent us on an expedition. But, the people turned their backs in a predicament. When we had retreated from the battlefield, we were ashamed and said to ourselves, “We are ruined.” We came to Allah’s Messenger (SAW)i and said, “0 Messenger of Allah, we are deserters.” He said, “Rather, you are contenders (who will attack again), and I am your helper.”
[Ahmed 5902]