کسی مسلمان کو اذیت پہنچانے ، عار دلانے اور اس کی عیب جوئی کرنے کی ممانعت
راوی:
وعن ابن عمر قال صعد رسول الله صلى الله عليه وسلم المنبر فنادى بصوت رفيع فقال يا معشر من أسلم بلسانه ولم يفض الإيمان إلى قلبه لا تؤذوا المسلمين ولا تعيروهم ولا تتبعوا عوراتهم فإنه من يتبع عورة أخيه المسلم يتبع الله عورته ومن يتبع الله عورته يفضحه ولو في جوف رحله . رواه الترمذي
" اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ منبر پر کھڑے ہوئے اور لوگوں کو با آواز بلند اس طرح مخاطب فرمایا اے وہ لوگو جو زبان سے تو اسلام لائے ہیں اور ان کے دل تک ایمان نہیں پہنچا ہے تمہیں آگاہ کیا جاتا ہے کہ تم ان مسلمانوں کو اذیت نہ دو جو کامل مسلمان ہیں بایں طور کہ انہوں نے زبان سے بھی اسلام کو قبول کیا ہے اور ان کا دل بھی ایمان سے نور سے منور ہے ان کو عار نہ دلاؤ اور ان کے عیب نہ ڈھونڈو۔ یاد رکھو جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیب تلاش کرتا ہے اللہ اس کا عیب ڈھونڈے گا اور جس کا عیب اللہ تعالیٰ ڈھونڈے اس کا رسوا کیا جانا یقینی ہے اگرچہ وہ لوگوں کی نگاہوں سے بچ کر اپنے گھر میں چھپا ہوا کیوں نہ ہو۔ (ترمذی)
تشریح
جو زبان سے اسلام لائے ہیں اس خطاب میں مومن اور منافق دونوں شامل ہیں اور اس کے آگے جو یہ فرمایا کہ جن کے دل ایمان تک نہیں پہنچا ہے یعنی ان کا دل اصل ایمان یا کمال ایمان کے نور سے منور نہیں ہوا ہے تو اس کے ذریعہ خطاب میں فاسق کو بھی شامل کر لیا گیا ہے یہ بات اس لئے بھی زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے کہ ارشاد گرامی میں آگے یہ فرمایا گیا ہے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیب تلاش کرتا ہے تو اس سے واضح ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خطاب تمام مسلمانوں سے تھا خواہ وہ کامل مسلمان ہوں یا منافق اور یا فاسق۔ اگر خطاب صرف منافقین سے ہوتا چونکہ مسلمان اور منافق کے درمیان اخوۃ یعنی بھائی چارہ نہیں ہے اس لئے اس ارشاد گرامی میں اپنے مسلمان بھائی کا لفظ استعمال نہ کیا جاتا لہذا طیبی کا اس قول کا اختیار کرنا کہ اس ارشاد گرامی کے مخاطب صرف منافقین ہیں اور صرف انہیں پر اس حدیث کا اطلاق ہوتا ہے ظاہر مفہوم کے خلاف ہے۔
" عار نہ دلاؤ " کا مطلب یہ ہے کہ کسی مسلمان کو اس کے اس گناہ پر طعن اور تنبیہ نہ کرو جو کبھی پہلے اس سے صادر نہ ہوا ہو خواہ اس گناہ سے اس کا توبہ کرنا تمہیں معلوم ہو یا نہ ہو البتہ اگر کوئی شخص کسی گناہ کے ارتکاب کی حالت میں ہو یا وہ کوئی گناہ کر چکا ہو اور وہ گناہ اس کے توبہ کرنے سے پہلے علم میں آ گیا ہو تو اس صورت میں اس کو اس گناہ پر طعن اور تنبیہ کرنا اس شخص پر واجب ہے جو اس پر قادر ہے اور اگر وہ گناہ قابل حد و تعزیر ہو تو اس پر حد اور تعزیز بھی جاری کرنا قاضی حاکم پر واجب ہوگا گویا اس صورت کا تعلق عار دلانے سے نہیں ہوگا بلکہ اس کا شمار امربالمعروف نہی عن المنکر کے زمرہ میں ہوگا۔
" نہ ان کے عیب ڈھونڈو" یعنی تم کسی مسلمان کے جن کے عیوب کو نہیں جانتے ہو اس کی ٹوہ میں نہ لگو اس کے جو عیوب تمہارے علم میں آ گئے ہیں ان کو دوسروں کے سامنے ظاہر نہ کرو اس سے ثابت ہوا کہ کسی مسلمان جو فاسق نہ ہو کے عیوب کی ٹوہ میں رہنے یا اس کے جو عیوب علم میں ہوں ان کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنے سے اجتناب کرنا واجب ہے اور جو شخص ایسا کرے اس سے خود بھی کنارہ کشی اختیار کرنا اور دوسروں کو بھی اس سے دور رکھنا واجب ہے۔
" اللہ اس کے عیب ڈھونڈے گا " کا مقصد اس بات سے آگاہ کرنا ہے کہ جو شخص اس دنیا میں کسی مسلمان کی عیب جوئی کرتا ہے یا کسی مسلمان کے عیوب کو ظاہر کرتا ہے دوسروں کے سامنے اس کو رسوا کراتا ہے اس کو جان لینا چاہیے کہ آخرت میں اس کے ساتھ بھی ایسا معاملہ ہوگا بایں طور کہ اللہ وہاں اس کے عیوب سے درگزر کرنے کے بجائے اس کی ایک ایک برائی پر نظر رکھے گا اور اس کے تمام عیوب کو مخلوق کے سامنے ظاہر کرے گا تاکہ جس طرح اس نے اپنے ایک مسلمان بھائی کو دنیا میں رسوا کیا تھا اسی طرح آخرت میں وہ خود بھی رسوا ہوگا اور ظاہر ہے کہ آخرت کی رسوائی دنیا کی رسوائی سے کہیں زیادہ ہو گی عطا نے لکھا ہے کہ کسی کے عیوب کی ٹوہ لگانا خود سب سے بڑا عیب ہے۔
امام غزالی نے لکھا ہے کہ عیب جوئی وہ خصلت ہے جو دراصل بد گمانی کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے جو شخص کسی مسلمان کے بارے میں بد گمانی قائم کر لیتا ہے وہ اپنے آپ کو قابو میں نہیں رکھ سکتا اس کی خواہیش ہوتی ہے کہ وہ ٹوہ میں لگا رہے چنانچہ وہ ٹوہ میں لگا رہتا ہے اور جب اس کے علم میں کوئی عیب آ جاتا ہے تو پھر وہ اس کی پردہ دری کرتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ شریعت نے ایک مسلمان کے کردار اس کی سماجی حثییت اس کے شخص وقار اور اس کی نجی زندگی کو معاشرہ میں ذلت و رسوائی سے بچانے پر بڑا زور دیا ہے یہی وجہ ہے کہ اس بات کی تاکید کے ساتھ حکم دیا گیا ہے کہ اگر تم کسی مسلمان کے کسی عیب کو جانو تو اس کو چھپاؤ نہ کہ اس کو اچھالتے پھرو نیز کسی شخص کو یہ اجازت نہیں ہے کہ کسی مسلمان کے نجی حالات کی جستجو کرے اس کی کمزروی کو کھوج کھوج کر دوسروں کے سامنے لائے اور اس کے کردار کے ان گوشوں میں جھانکنے کی کوشش کرے جن کو وہ دنیا کی نظروں سے چھپانا چاہتا ہے اس کی اہمیت اس بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ شریعت نے کسی مسلمان کے عیوب کی پردہ پوشی کا جو حکم دیا ہے اس کی حد یہ ہے کہ اگر کسی کے پڑوس میں ایسا مکان ہے جہاں شغل مے نوشی ہوتا ہے اور راگ رنگ کی مجلس جمتی ہو تو اس شخص کو چاہے کہ وہ خود اپنے مکان کا دروازہ بند کرے تاکہ اس کی نظر اس مذکورہ مکان کے درمیان جو دیوار حائل ہے اس سے کان لگا کر چوری چھپے اس آواز کو سننے کی کوشش نہ کرنی چاہیے جو اس مکان میں گانے بجانے اور راگ رنگ وغیرہ کے پیدا ہونے کا سبب ہے۔ اور نہ یہ جائز ہے کہ اس برائی کو دیکھنے کے لئے اس شخص کے گھر میں گھسا جائے ہاں اگر اس مکان کے مکین اپنے افعال بد کو خود ظاہر کر رہے ہوں جیسے وہ اتنی بلند آواز میں گانا بجانا کر رہے ہوں کہ باہر تک آواز آ رہی ہو یا شرابی لوگ آپس میں شرابیوں جیسا کہ شورو شغب کر رہے ہوں اور ان کی آواز ان کے شغل مے نوشی بھی ان تک ظاہر ہو رہی ہو تو یہ دوسری بات ہے کہ اس طرح اگر وہ شخص ان کی ٹوہ لینے کے مقصد کے بغیر یونہی اس گھر میں چلا جائے اور وہ لوگ شغل مے نوشی یا گانا بجانا موقوف کر کے شراب کے برتن اور گانے بجانے کی چیزیں اپنے دامن وغیرہ کے نیچے چھپا لیں تو اس شخص کے لئے یہ جائز نہ ہوگا اور نہ یہ جائز ہوگا اپنے پڑوسیوں سے دریافت کرتا پھرے کہ اس کے مکان میں کیا کیا ہوتا ہے ۔
آخر میں ایک بات یہ جان لینی چاہیے کہ حدیث کے الفاظ ولم یفض الایمان الی قلبہ (اور ان کے دل تک ایمان نہیں پہنچا ہے) میں اس طرف اشارہ ہے کہ جب تک ایمان نور دل کو روشن نہیں کر دیتا اس وقت تک نہ اللہ کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور نہ اس کے حقوق ادا ہوتے ہیں اور یہ کہ قلب کے تمام روحانی امراض کا علاج اللہ کی معرفت اور اس کے حقوق کو ادا کرنے پر موقوف ہے چنانچہ جو شخص اللہ کی معرفت حاصل کر لیتا ہے اور اس کے حقوق کو ادا کرتا ہے تو نہ وہ کسی کو تکلیف پہنچاتا ہے اور نہ کسی کو نقصان و ضرر میں مبتلا کرتا ہے نہ کسی کو عار دلاتا ہے اور نہ کسی کے احوال و کردار کی کمزوریوں اور اس کے عیوب کی تلاش و جستجو میں رہتا ہے۔