مشورہ چاہنے والے کو وہی مشورہ دو جس میں اس کی بھلائی ہو
راوی:
وعن أبي هريرة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لأبي الهيثم بن التيهان هل لك خادم ؟ فقال لا . قال فإذا أتانا سبي فأتنا فأتي النبي صلى الله عليه وسلم برأسين فأتاه أبو الهيثم فقال النبي صلى الله عليه وسلم اختر منهما . فقال يا نبي الله اختر لي فقال النبي صلى الله عليه وسلم إن المستشار مؤتمن . خذ هذا فإني رأيته يصلي واستوص به معروفا . رواه الترمذي
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ایک صحابی ابوالہیثم بن تیہان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ تمہارے پاس کوئی خادم ہے انہوں نے عرض کیا نہیں ۔ آپ نے فرمایا جب ہمارے پاس کہیں سے غلام آئیں تو تم آ جانا میں تمہیں ایک غلام دے دوں گا چنانچہ کچھ عرصہ کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو غلام آئے تو ابوالہیثم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ یہ دو غلام ہیں ان دونوں میں سے کسی کو اپنے لئے پسند کر لو۔ ابوالہیثم نے عرض کیا یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ ہی میرے لئے کوئی غلام پسند فرما دیں حضور نے فرمایا جس شخص سے مشورہ لیا جائے اس کو امین ہونا چاہیے یعنی مشیر کو چاہیے کہ مشورہ چاہنے والے کی بھلائی کو بہر صورت ملحوظ رکھنا چاہیے اور وہی مشورہ دے جو اس کے حق میں بہتر ہو گویا حضور نے اس ارشاد کے ذریعہ ابوالہیثم پر واضح کر دیا جب تم نے حق کا انتخاب میرے سپرد کر دیا ہے اور مجھ سے مشورہ چاہتے ہو تو میں تمہیں وہی غلام دوں گا جو تمہارے لئے بہتر ہو۔ اس کے بعد حضور نے فرمایا اس غلام کو لے جاؤ کیونکہ میں نے اس کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور بھلائی اختیار کرنے کی میری وصیت پر ہمشہ عمل کرنا۔ (ترمذی)
تشریح
ایک روایت میں یہ بھی منقول ہے کہ جب حضرت ابوالہیثم اس غلام کو گھر لے کر آئے اور اہلیہ سے فرمایا کہ سرکار نے مجھ کو یہ غلام دیا ہے اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور بھلائی کرنے کی وصیت فرمائی تو ان کی بیوی نے کہا اس وصیت پر عمل پیرا ہونے کا حق شاید پوری طرح ادا نہ ہو سکے اس کے لئے اس کے ساتھ حسن سلوک یہی ہے کہ اس کو آزاد کر دیا جائے ۔