خرچ میں میانہ روی زندگی کا آدھا سرمایہ ہے
راوی:
وعن ابن عمر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم الاقتصاد في النفقة نصف المعيشة والتودد إلى الناس نصف العقل وحسن السؤال نصف العلم روى البيهقي الأحاديث الأربعة في شعب الإيمان
" اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا اخراجات میں میانہ روی اختیار کرنا نصف معیشت ہے انسانوں سے دوستی نصف عقل ہے اور خوبی کے ساتھ سوال کرنا آدھا علم ہے ان چار روایتوں کو بہیقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔
تشریح
حدیث کے پہلے جزء کا مطلب یہ ہے کہ اپنے اور اپنے متعلقین کی ضروریات زندگی خرچ کرنے میں نہ تو اسراف کرنا اور نہ تنگی کرنا بلکہ میانہ روای اختیار کرنا زندگی کا آدھا سرمایہ ہے بایں طور کہ انسان کی معاشی زندگی کا دار و مدار دو چیزوں پر ہے ایک تو آمدنی دوسری خرچ اور ان دونوں کے درمیان توازن خوشحالی کی علامت ہے اور معیشت کے مستحکم ہونے کا ذریعہ بھی ہے لہذا جس طرح آمدنی کے توازن کا بگڑنا، خوش حالی کے منافی اور معشت کے عدم استحکام کا سبب ہے اسی طرح اگر اخراجات کا توازن بگڑ جائے تو نہ صرف خوش حالی مفقود ہوگی بلکہ معیشت کا سارا ڈھانچہ درہم برہم ہو جائے گا لہذا مصارف میں اعتدال کرنا میانہ روی اختیار کرنا معیشت کا نصف حصہ ہوا۔
حدیث کے دوسرے جزء کا مطلب یہ ہے کہ اچھے لوگوں کے ساتھ محبت ظاہر کرنا اور ان کی محبت کو اپنے معاملات و احوال میں خیر و برکت کا سرچشمہ جاننا اس عقل کا نصف حصہ ہے جو حسن معاشرت کی ضامن ہے گویا پوری عقل مندی یہ ہے کہ انسان کوئی کسب و پیشہ اور سعی و محنت کر کے جائز روزی حاصل کرے اور اس کے ساتھ آپس میں محبت و مروت کے جذبات بھی رکھے ۔
حدیث کے تیسرے جز کا مطلب یہ ہے کہ کسی علمی مسئلہ میں خوب سوچ سمجھ کر اور اچھی طرح سوال کرنا آدھا علم ہے کیونکہ جو شخص سوال کرنے میں دانا اور سمجھ دار ہوتا ہے اسی چیز کے بارے میں سوال کرتا ہے جو بہت زیادہ ضروری ہو اور بہت کارآمد ہو اور چونکہ وہ اپنے علم میں اضافہ کا متمنی ہوتا ہے او اس کے ساتھ ہی وہ پوچھی جانے والی چیزوں کے درمیان تمیر کرنا جانتا ہے کہ کیا پوچھنا چاہیے اور کس سے پوچھنا چاہیے اس لئے جب وہ اپنے سوال کا جواب پا لیتا ہے تو حل طلب مسئلہ میں اس کا علم پورا ہو جاتا ہے اس اعتبار سے گویا علم کی دو قسمیں ہوئیں ایک تو سوال اور دوسرے جواب۔
رہی یہ بات کہ اچھی طرح سوال کرنے کا مطلب تو جاننا چاہیے کہ اچھے سوال کا اطلاق اس سوال پر ہوتا ہے کہ جس کے تمام پہلوؤں کی تحقیق کر لی گئی ہو۔ اس میں جتنے احتمالات پیدا ہو سکتے ہیں ان سب کی واقفیت ہو تاکہ شافی کافی جواب پائے اور جواب میں کوئی پہلو تشنہ نہ رہنے پائے اس طرح کا سوال بذات خود علم کی ایک شق ہوگا اور اس پر یہ اشکال وارد نہ ہوگا کہ جب سوال کرنا جہل اور تردد پر دلالت کرتا ہے تو سوال کرنے کو نصف علم کسی طرح کہا گیا ہے تاہم مذکورہ اشکال کے پیش نظر ایک بات یہ بھی کہی جا سکتی ہے کہ جو شخص خوب سوچ سمجھ کر اور صحیح اندازہ میں سوال کرتا ہے کہ اس کے بارے میں یہی سمجھا جاتا ہے کہ یہ ایک ایسا شخص ہے جو علمی ذوق کا حامل ہے اور علم میں اپنا کچھ حصہ ضرور رکھتا ہے اور اس بات کا خواہش مند ہے کہ اپنے ناقص علم کو پورا کرے لہذا اس کے سوال کو نصف علم کہنا موزوں ہوگا اس کے برخلاف جو شخص بغیر سوچے سمجھے اس اور خراب انداز میں سوال کرتا ہے وہ اپنے اس سوال کے ذریعہ اپنے نقصان عقل و کمال اور جہالت پر دلالت کرتا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ سوال کی نوعیت اور سوال کرنے کا انداز سوال کرنے والے کی شخصیت و حالت پر بذات خود دلالت کرتا ہے اور اس کے سوال کی روشنی میں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوتا کہ یہ شخص بالکل ہی جاہل ہے یا علم سے کچھ سروکار رکھتا ہے جس شخص میں علم و عقل کی روشنی ہوگی یہ سوال بھی عالمانہ اور عاقلانہ ہوگا۔ اور جو شخص نرا جاہل ہوگا اس کی اور باتوں کی طرح اس کا سوال بھی جاہلانہ اور عامیانہ ہوگا جیسا کہ کسی نے کہا کہ جب جاہل بات کرتا ہے تو گدھے کی طرح معلوم ہوتا ہے اور جب چپ رہتا ہے تو دیوار کی طرح معلوم ہوتا ہے۔