برے بندے کون ہیں؟
راوی:
وعن أسماء بنت عميس قالت سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول بئس العبد عبد تخيل واختال ونسي الكبير المتعال بئس العبد عبد تجبر واعتدى ونسي الجبار الأعلى بئس العبد عبد سهى ولهى ونسي المقابر والبلى بئس العبد عبد عتى وطغى ونسي المبتدأ والمنتهى بئس العبد عبد يختل الدنيا بالدين بئس العبد عبد يختل الدين بالشبهات بئس العبد عبد طمع يقوده بئس العبد عبد هوى يضله بئس العبد عبد رغب يذله رواه الترمذي والبيهقي في شعب الإيمان . وقالا ليس إسناده بالقوي وقال الترمذي أيضا هذا حديث غريب
" اور حضرت اسماء بنت عمیس کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ برا بندہ ہے جس نے اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر جانا اور تکبر کیا اور خداوند بزرگ و برتر کو وہ بھول گیا (یعنی اس نے یہ فراموش کر دیا کہ بزرگی و بلندی و برتری صرف اللہ تعالیٰ کے لئے مخصوص ہے یا یہ بھول گیا کہ اس نے دنیا میں احتیاط و تقوی کی راہ چھوڑ کر جس برے راستہ کو اختیار کیا ہے اس کی جواب دہی اس کو اخرت میں کرنی ہو گی اور وہاں اللہ کا عذاب بھگتنا ہوگا، برا بندہ ہے وہ بندہ جس نے لوگوں پر جبر و جور کیا اور ظلم و فساد ریزی میں حد سے بڑھ گیا اور خداوند جبار قہار کو بھول گیا جس کی قدرت و عزت سب سے بلند ہے برا بندہ وہ بندہ ہے جو دین کے کاموں کو بھول گیا اور دنیا داری میں مشغول رہا اور اس نے مقبروں کو اور خاک میں مل جانے والے جسم کی کہنے گی و بوسیدگی کو فراموش کر دیا۔، مقبروں کو بھولنا موت کو بھولنے سے کنایہ ہے یعنی اس نے یہ فراموش کر دیا کہ ایک دن موت کا پنجہ آ دبوچے گا اور اس وقت سے پہلے ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی کے لئے کچھ تیاری کر لینی چاہیے۔ برا بندہ وہ ہے جس نے فتنہ و فساد برپا کیا اور حد سے متجاوز ہو گیا اور اپنی ابتداء و انتہاء کو بھول گیا، یعنی نہ تو اس کو یاد رہا کہ وہ کتنی ہی حقیر سی چیز سے پیدا کیا گیا ہے اور ابتداء میں وہ کس قدر عاجز و نا تو اں تھا اور نہ اس کو اپنا انجام یادر رہا کہ ابھی اس کو کیا کیا دیکھنا ہے۔ اور آخرکار پیوند زمین ہو جانا ہے ۔ برا بندہ وہ ہے جو دین کے ذریعہ دنیا حاصل کرے یعنی دنیا کو حاصل کرنے کے لئے دین کو وسیلہ بنائے یا یہ معنی ہیں کہ صلحاء اور بزرگوں کی شکل اختیار کرے اور دین کا لبادہ اوڑھے اور اہل دنیا کو فریب دے تاکہ وہ اس کے معتقد و مداح ہو جائیں اور ان سے مال و جاہ حاصل کرے۔ برا بندہ وہ ہے جس نے مخلوق سے طمع و امید قائم کی اور حرص و طمع اس کو دنیا داروں کے دروازہ پر کھینچے پھرتی ہے اور جدھر چاہتی ہے لے جاتی ہے اور برا بندہ وہ ہے جس کو دنیا کی طرف اس کی رغبت و خواہش حصول دنیا کی حرص اور کثرت مال و جاہ کی ہوس ذلیل و خوار کرتی ہے اور اس کے دین کی آبر و ریزی کرتی ہے، اس روایت کو ترمذی نے اور شعب الایمان میں بہیقی نے نقل کیا ہے۔ اور دونوں نے کہا ہے کہ اس حدیث کی اسناد قوی نہیں ہیں نیز ترمذی نے بھی کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔
تشریح
یہ حدیث محض ترمذی و بیہقی کی مذکورہ اسناد ہی سے منقول نہیں ہے بلکہ اس کو طبرانی نے بھی نقل کیا ہے اور ایک دوسرے موقع پر بیہقی نے نعیم بن ہماز سے نقل کیا ہے کہ نیز اس کو حاکم نے بھی اپنی مستدرک میں نقل کیا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ کثرت طرق ضعیف حدیث کو قوی کر دیتا ہے اور اس کو حسن لغیرہ کے درجہ پر پہنچا دیتی ہے جس سے روایت کا مقصد پورا ہو جاتا ہے جہاں تک ترمذی کے اس قول کا تعلق کہ یہ حدیث غریب ہے تو واضح رہے کہ اول تو غرابت صحت اور حسن کے منافی نہیں ہے دوسرے یہ کہ تمام محدثین کے نزدیک فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر بھی عمل کیا جاتا ہے ۔ لہذا وعظ و نصیحت کے موقع پر اس حدیث کو ذکر کرنا اور لوگوں کو اس سے سبق حاصل کرنے کی تلقین کرنا بطریق اولی مناسب ہوگا۔