وہ تین چیزیں جو نجات کا ذریعہ ہیں اور وہ تین چیزیں جو اخروی ہلاکت کا باعث ہیں۔
راوی:
وعن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ثلاث منجيات وثلاث مهلكات فأما المنجيات فتقوى الله في السر والعلانية والقول بالحق في الرضى والسخط والقصد في الغنى والفقر . وأما المهلكات فهوى متبع وشح مطاع واعجاب المرء بنفسه وهي أشدهن . روى البيهقي الأحاديث الخمسة في شعب الإيمان
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین چیزیں نجات دینے والی ہیں اور تین چیزیں آخرت میں ہلاک کرنے والی ہیں جو چیزیں نجات دینے والی ہیں ان میں سے ایک تو ظاہر میں اللہ سے ڈرنا ہے یعنی جلوت و خلوت ہر حالت میں اور ہر حرکت و عمل کے وقت اللہ کا خوف غالب ہو یا یہ کہ بندہ کا ظاہر بھی خوف اللہ کے احساس کا مظہر ہو اور اس کا باطن بھی خوف اللہ سے معمور ہو) دوسری چیز خوشی و ناخوشی ہر حالت میں حق بات کہنا ہے، تیسری چیز دولت مندی و فقیری دونوں حالتوں کے درمیان میانہ روی اختیار کرنا ہے اور جو چیزیں ہلاک کرنے والی ہیں ان میں سے ایک تو خواہش نفس ہے جس کی پیروی کی جائے دوسری چیز حرص و بخل ہے انسان جس کا غلام بن جائے اور وہ تیسری چیز مرد کا اپنے نفس پر گھمنڈ کرنا ہے۔ اور یہ تیسری چیز ان سب میں بدترین خصلت ہے مذکورہ بالا پانچوں روایتوں کو بہیقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔
تشریح
خوشی و ناخوشی میں حق بات کہنے کا مطلب یہ ہے کہ حقیقت بیانی اور حق گوئی کو اپنی کسی مصلحت کسی مفاد اور اپنے کسی جذبہ پر خوشی و ناخوشی کا پابند نہیں بنانا چاہیے بلکہ اگر کسی سے راضی و خوشی ہے تو اس کے سامنے بھی وہی بات کہے جو حق ہے اور اگر اس سے ناراض ہو تو اس صورت میں بھی حق بات ہی کہے۔ مثلا اگر کوئی شخص خود کو کسی ایسے شخص سے کوئی نفع و فائدہ پہنچتا ہے دوسروں کے ساتھ جس کا ظلم اور جس کا فسق ظاہر ثابت ہو تو اس کی ناحق تعریف و ستائش اور خلاف واقعہ بات محض اس لئے بیان نہ کرے کہ ذاتی فائدہ حاصل ہونے کی وجہ سے اس سے خوش ہے اس طرح اگر کسی صالح و بزرگ شخصیت سے کسی معاملہ میں کوئی اختلاف اور ناراضگی کی صورت پیدا ہو جائے تو محض اپنی ذاتی ناراضگی کی وجہ سے اس کی برائی اور مذمت نہ کرے حاصل یہ کہ خواہ کسی سے خوش ہو یا ناراض ، دونوں صورتوں میں راہ استقامت پر گامزن رہے اور حق گوئی کے فریضہ کو کسی بھی حالت میں پس پشت نہ ڈالے۔
میانہ روی اختیار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ خرچ و اخراجات میں نہ تو اس قدر وسعت و فراخ دستی کا طور اپنائے کہ اس پر اسراف کا اطلاق ہونے لگے اور نہ اس قدر تنگی و سختی اختیار کرے کہ فقر و افلاس ظاہر ہونے لگے یا یہ کہ مراد ہے کہ فقر غناء کے درمیان اعتدال قائم کرے اور درمیانی راستہ کو اختیار کرے کہ جیسا کہ علماء نے کہا ہے کہ حصول معاش کی جدوجہد میں اس حد پر اکتفا کرنا کہ جس سے ضروریات زندگی کی تکمیل اور بقاء کا سامان فراہم ہو جاتا ہو غنا اور فقر دونوں سے افضل ہے۔
خواہش نفس کی پیروی کی جائے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو اس طرح کا تابع کر دینا ہے کہ اس کی ہر خواہش پوری کرنے لگے وہ جو کچھ کہے اور جس طرف لے جائے ادھر چل پڑے ایک ایسی خصلت ہے جو ہلاکت و تباہی میں ڈال دیتی ہے اس کے برخلاف ایمان کا کامل ہونا اس بات پر منحصر ہے کہ اپنے نفس کو فرمان اور شریعت مصطفوی کا تابع بنایا جائے۔
بخل و حرص کا غلام بن جانے کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ بخل و حرص انسان کی طبیعت میں داخل ہے او اس کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہے کہ انسان بخل و حرص کے مادہ سے بالکل خالی ہو، لیکن اپنے آپ کو بخل و حرص کا اس طرح غلام بنا دینا کہ کسی بھی صورت میں ان چیزوں سے خود کو محفوظ رکھنا ممکن نہ ہو، ایک ایسی خصلت ہے جو انسان کو اخروی تباہی و ہلاکت میں ڈال دیتی ہے۔
حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ ہلاکت میں ڈالنے والی جن تین چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں از روئے گناہ اور نقصان سب سے بدتر خصلت عجب یعنی خود بینی و خود ستائی ہے جس کی وجہ سے انسان تکبر و غرور میں مبتلا ہو جاتا ہے کیونکہ خواہش نفس کی اتباع اور بخل و حرص کی غلامی یہ دونوں برائیاں اس طرح کی ہیں کہ اگر کوئی شخص ان میں گرفتار ہو تو ان کے پھندے سے اپنے آپ کو نکال لینا اور توبہ و انابت کی راہ اختیار کرنا زیادہ مشکل نہیں ہوتا مگر خود بینی و خود ستائی ایک ایسا مرض ہے جو اگر لاحق ہو جاتا ہے تو کم ہی پیچھا چھوڑتا ہے اور انسان کو کبر و نحوست میں اس طرح مبتلا کر دیتا ہے کہ وہ اپنے کسی برے فعل کی اچھائی و برائی کے احساس تک سے خالی ہو جاتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے کسی برے فعل پر نادم نہیں ہوتا اور توبہ و انابت کی راہ اس سے دور ہوتی چلی جاتی ہے جیسا کہ بدعتی، بدعت کے پھندے میں اس طرح پھنس جاتا ہے کہ اس سے نکلنا آسان نہیں ہوتا چنانچہ بدعتی سے کم ہی توبہ کی توفیق ہوتی ہے۔