مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ توکل اور صبر کا بیان ۔ حدیث 1071

گناہ کی زیادتی موجب ہلاکت ہے

راوی:

وعن أبي البختري عن رجل من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لن يهلك الناس حتى يعذروا في أنفسهم . رواه أبو داود

" حضرت ابوالبختری ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے ایک شخص سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " لوگ اس وقت تک ہرگز ہلاک وبرباد نہیں ہوں گے جب تک کہ ان سے بہت زیادہ گناہ اور برائیاں صادر ہونے لگیں گے" ۔ (ابو داؤد)

تشریح :
لفظ " یعذروا " یا کے پیش، عین کے جزم اور ذال کے زیر کے ساتھ" اعذار" سے مشتق ہے اور صراح میں لکھا ہے کہ " اعذار " کے معنی ہیں بہت گناہ گار اور باعیب ہونا۔ اس طرح قاموس میں لکھا ہے کہ اعذر فلان ای کثرت ذنوبہ وعیوبہ (یعنی جب اہل عرب یہ کہتے ہیں کہ " اعذر فلان " یعنی فلاں شخص نے اعذار کیا تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اس شخص سے بکثرت گناہ اور عیوب صادر ہوئے) مفہوم کے اعتبار سے حدیث کے اس جملہ میں اعذار کا لفظ گویا سلب عذر کے معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی جب کسی شخص کے گناہ اور عیوب بکثرت ہوجائیں تو پھر اس پر حق تعالیٰ کے عذاب کے نازل ہونے اور لوگوں کی طرف سے ان کو ان گناہ وعیوب سے روکنے اور منع کرنے میں کوئی عذر حائل نہیں رہ جاتا، لہٰذا اس شخص نے اپنے گناہوں اور عیوب کی کثرت کے سبب گویا اس عذر کو ختم کردیا جو اس کو عذاب الٰہی سے محفوظ رکھتا۔
اعذار کا لفظ صاحب عذر یعنی عذر کرنے والے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، اور یہ معنی بھی حدیث کے مفہوم سے مطابقت رکھتے ہیں اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ لوگ اس وقت تک ہلاکت وبربادی میں مبتلا نہیں ہوں گے جب تک کہ وہ اپنے اور اپنی برائیوں کے بارے میں دور دراز کی تاویلیں اور ناروا عذر ومعذرت کرنے کا رویہ اختیار نہ کریں۔
بعض روایتوں میں یہ لفظ یعذروا (یاء کے زبر کے ساتھ) منقول ہے جس کا مادہ اشتقاق عذر (عین کے زبر کے ساتھ ) ہے اور اس کے معنی ہیں معذور رکھنا۔ اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ لوگ اس وقت تک ہلاکت وتباہی میں مبتلا نہیں ہوں گے جب تک کہ وہ لوگوں کو اس طرح معذور ومجبور نہ کردیں کہ وہ ان کو کثرت گناہ اور برائیوں میں مبتلا دیکھ کر ان کو ان گناہوں اور برائیوں سے نہ روک سکیں اور نہ ان پر ملامت کرسکیں۔
بہر حال تینوں صورتوں میں حدیث کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دنیا کے مصائب وآفات اور ہلاکت وتباہی میں صرف اسی وقت مبتلا کرتا ہے جب کہ وہ گناہوں اور خلاف شرع امور کے ارتکاب میں منہمک ہوجاتے ہیں، احکام الٰہی کی نافرمانی کثرت سے کرنے لگتے ہیں، اور جب اللہ کے نیک بندے ان کو گناہوں اور برائیوں سے روکتے ہیں تو ان کا کوئی اثر قبول نہیں کرتے بلکہ نہایت بے حسی اور لاپرواہی کے ساتھ اپنی اختیار کی ہوئی راہ پر چلتے رہتے ہیں ۔

یہ حدیث شیئر کریں