عمل خیر اور عمل بد قیامت کے دن متشکل ہو کر سامنے آئیں گے
راوی:
وعن أبي موسى الأشعري قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم والذي نفس محمد بيده إن المعروف والمنكر خليقتان تنصبان للناس يوم القيامة فأما المعروف فيبشر أصحابه ويوعدهم الخير وأما المنكر فيقول إليكم إليكم وما يستطيعون له إلا لزوما . رواه أحمد والبيهقي في شعب الإيمان
حضرت ابوموسیٰ اشعری کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " اس ذات پاک کی قسم جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے قیامت کے دن مشروع عمل اور غیر مشروع عمل کو (آدمیوں کی شکل وصورت میں ) پیدا کیا جائے گا اور ان کو (ان ) لوگوں کے سامنے کھڑا کیا جائے گا (جنہوں نے ان اعمال کو دنیا میں اختیار کیا ہوگا) چنانچہ مشروع عمل اپنے لوگوں کو خوشخبری سنائے گا اور انجام کی بھلائی کا وعدہ دے گا، جب کہ غیر مشروع عمل اپنے لوگوں سے ) کہے گا کہ مجھ سے دور ہوجاؤ لیکن وہ لوگ اس سے جدا ہوجانے کی طاقت نہیں رکھیں گے بلکہ اس سے چمٹے رہیں گے" ۔ (احمد ، بیہقی)
تشریح :
حدیث کا حاصل یہ ہے کہ انسان دنیا میں جو نیک اور اچھے اعمال کرے گا وہ اس کے مرنے کے بعد قبر میں بھی اچھی وپاکیزہ اور عطر بیز صورتوں میں ظاہر ہوں گے اور قیامت کے دن بھی بہترین شکل وصورت اختیار کر کے اس شخص کے سامنے آئیں گے اور اس کو آخرت کی لازوال سعادتوں اور حسن انجام کی خوشخبری سنائیں گے، اس کے برخلاف اگر کوئی شخص برے اعمال اختیار کرے گا تو وہ اعمال قبر میں بھی خراب اور ڈراؤ نی صورتوں میں آکر پریشان کریں گے اور قیامت کے دن بھی بری شکل وصورت کے ساتھ اس کے سامنے آئیں گے اور اس کو اس کے برے انجام سے ڈراتے ہوئے کہیں گے کہ ہمارے پاس سے دور ہٹ جا، مگر وہ شخص اس سے دور ہٹنے پر قادر نہیں ہوگا یعنی ان برے اعمال پر جو سزا ملنے والی ہوگی اس سے وہ شخص بھاگ نہیں پائے گا۔ لفظ " تنصبان" مجہول ہونے کی وجہ سے مونث کا صیغہ ہے لیکن مشکوۃ کے ایک نسخے میں یہ لفظ بہ صیغہ مذکر منقول ہے اور یہی زیادہ موزوں ہے کیونکہ لفظ " خلیقہ" میں حرف تاء تانیث کے لئے نہیں ہے بلکہ اظہار (مبالغہ کے لئے ہے اور اس لفظ کے معنی یہ ہیں کہ یہ دونوں یعنی عمل خیر اور عمل بد مخلوقات میں سے ایک نوع ہیں جو قیامت کے دن لوگوں کے سامنے شکل وصورت اختیار کر کے ظاہر ہوں گے۔