مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان ۔ حدیث 1089

دنیا کی طرف راغب ہونا تباہی وبربادی کی طرف راغب ہونا ہے

راوی:

وعن عمرو بن عوف قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " فوالله لا الفقر أخشى عليكم ولكن أخشى عليكم أن تبسط عليكم الدنيا كما بسطت على من كان قبلكم فتنافسوها كما تنافسوها وتهلككم كما أهلكتهم " . متفق عليه

حضرت عمروبن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔" اللہ کی قسم مجھے تمہارے فقروافلاس کا کوئی ڈر نہیں ہے (کیونکہ فقروافلاس کی حالت میں دین کی سلامتی کا امکان غالب ہوتا ہے اور یہ چیز تمہارے حق میں زیادہ سود مند ہے) بلکہ میں اس سے ڈرتا ہوں کہ دنیا تم پر کشادہ کی جائے گی (اور تم مالداروں کا طور طریقہ اختیار کر کے مختلف قسم کی آفتوں اور بلاؤں کے ذریعہ ہلاکت وتباہی میں مبتلا ہوجاؤگے) جیسا کہ ان لوگوں پر دنیا کشادہ کی گئی تھی جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں (اور وہ مال ودولت کی بے حد رغبت ومحبت رکھنے کی وجہ سے فقراء اور مساکین پر رحم نہیں کھاتے تھے اور ان کی مدد واعانت سے گریز کرتے تھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کو تباہ وبرباد کردیا گیا) چنانچہ تم دنیا کی طرف رغبت کرو گے (یعنی دنیا کو اختیار کرو گے اور اس کی طرف نہایت رغبت رکھوگے کہ ایک دوسرے سے مال ودولت اور جاہ وحکومت حاصل کرنے کے لئے لڑائی جھگڑا شروع کردو گے) جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں نے اس کی طرف رغبت کی تھی اور پھر یہ دنیا تم کو اسی طرح تباہ وبرباد کردے گی جس طرح ان کو تباہ وبرباد کرچکی ہے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح :
مال ودولت کی وہ فراخی وآسودگی جو دنیا کا گرویدہ بناتی ہے، حرص وطمع میں مبتلا کرتی ہے، جوڑنے سمیٹنے اور ذخیرہ اندوزی کا خوگر کرتی ہے چونکہ انسان کو اخلاقی وروحانی طور پر تباہ وبرباد کردیتی ہے اور اخروی ہلاکت کا مستوجب بنادیتی ہے اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کی دنیاوی خوشحال وآسودگی اور مالداری سے اپنے خوف کا اظہار فرمایا! یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دنیاوی نفع وآسودگی اور خوشحالی کے تئیں خوف کا اظہار فرمایا جو باہمی مخالفت ونزاع، سماجی استحصال ولوٹ گھسوٹ اور محض دنیاوی اقتدار کے لئے جنگ وجدل اور قتل وقتال کے نتیجہ میں حاصل ہو۔
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس ارشاد گرامی میں " فقر" سے مراد ان تمام چیزوں سے تہی دست ہونا ہے جن کی ایک انسانی زندگی کو احتیاج ہوتی ہے اور جن پر ضروریات دین کی تکمیل اور بنیادی اسباب معیشت کا انحصار ہوتا ہے۔ اسی طرح غنا یعنی دنیاوی فراخی وآسودگی سے مراد دنیا کی چیزوں کا اس قدر حاصل ہونا ہے جو مقدار کفایت وضرورت سے زائد ہوں جس کی وجہ سے انسان حق تعالیٰ کی عبادت واطاعت سے غافل ہوجاتا ہے اور تمردو سرکشی اختیار کرلیتا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں