رزق کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا
راوی:
وعن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : " اللهم اجعل رزق آل محمد قوتا " وفي رواية " كفافا " . متفق عليه
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ دعا فرمائی" اے اللہ! تو آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بقدر قوت، رزق عطا فرما " اور ایک روایت میں (قوت کے بجائے) " کفاف" کا لفظ ہے (بخاری ومسلم)
تشریح :
ملاعلی قاری کے مطابق" آل" سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذریت (اولاد) اور اہل بیت ہیں یا امت کے وہ لوگ مراد ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سچے تابعدار اور محبوب ہوں۔ اور حضرت شیخ عبدالحق رحمہ اللہ نے یہ لکھا ہے کہ " آل" سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے تمام افراد اور متبعین مراد ہیں جیسا کہ لفظ " آل" کے اصل معنی یہی مراد لئے جاتے ہیںَ اور اگر اہل وعیال ہی کو مرادلیا جائے تو بھی قیاس اور دلالت کو بنیاد بنا کر ان (اہل وعیال) کے علاوہ امت کے باقی افراد کو بھی اس دعا میں شامل قرار دیا جائے گا۔
" قوت" کھانے پینے کی اس محدود مقدار کو کہتے ہیں جو زندگی کو باقی اور جسمانی توانائی کو برقرار رکھے، اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ کھانے پینے کی وہ محدود مقدار " قوت" کہلاتی ہے جو جان کو بچائے اور بطور رزق کافی ہو " کفاف" بنیادی ضروریات زندگی کی اس مقدار کو کہتے ہیں جو کسی کے سامنے دست سوال دراز کرنے سے محفوظ باز رکھے۔ نیز بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ " قوت اور کفاف" کے ایک ہی معنی ہیں اور زیادہ صحیح بات بھی یہی ہے کہ دوسری روایت کا لفظ " کفاف" دراصل پہلی روایت کے لفظ " قوت" کی وضاحت ہے اور اس لفظ کے ذریعہ اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اسباب معیشت اور ضروریات زندگی کی کم سے کم مقدار پر اکتفا کرنا اولیٰ ہے، واضح رہے کہ حق تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس دعا کو اپنے ان بندوں کے حق میں قبول فرمایا جنہیں اس نے اپنا پیارا اور برگزیدہ بنانا چاہا۔
اس بات کو ملحوظ رکھنا چاہئے کہ " کفاف" یعنی خوراک کی بقدر کفایت مقدار، کوئی متعین اور آخری نہیں، بلکہ اس کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں اور اس فرق واختلاف کا مدار اشخاس، زمانہ اور حالات کی عدم یکسانیت پر ہے، مثلا ایک شخص ایسا ہوتا ہے جو قلیل کھانے کی عادت رکھتا ہے بایں طور کہ وہ دو تین دن یا اس سے زائد بھوکا رہ سکتا ہے، ایک شخص ایسا ہوتا ہے جو دن بھر میں دو تین بار کھانے کی عادت رکھتا ہے، کوئی شخص کم یا زیادہ اہل وعیال رکھتا ہے اور کوئی شخص سرے سے عیالدار ہی نہیں ہوتا، اسی طرح بعض حالات اور بعض اوقات ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں کھانے پینے کی تھوڑی سی مقدار بھی کافی ہوجاتی ہے جیسے قحط کا زمانہ ، تنگدستی کی حالت اور ضعف وکمزوری یا مرض کا لاحق ہنا، اس کے برخلاف خوشحالی وآسودگی اور قوت وتوانائی کی حالت میں کھانے پینے کی زیادہ خواہش ہوتی ہے غرضیکہ کفاف کی مقدار کو منضبط نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کا دارومدار وقت وحالات وضروریات پر ہوتا ہے کہ جو شخص جس حیثیت کا اور جس حالت میں ہوتا ہے اس کے حق میں کفاف کی مقدار اسی کے مطابق ہوتی ہے۔ البتہ مستحسن اور مطلب یہ ہے کہ انسان کو اپنے کھانے پینے کی ضروریات کو بس اسی مقدار تک محدود رکھنا چاہئے جو زندگی کی بقاء کے لئے ناگزیر اور جسمانی قوت توانائی کی برقراری کے لئے ضروری ہو کہ جس سے عبادات وطاعات پر قدرت حاص رہے اور معمولات زندگی فوت نہ ہوں۔
اس حدیث میں گویا مسلمانوں کو اس امر پر متنبہ کرنا مقصود ہے کہ وہ حصول معاش کی جدوجہد کی ضروریات زندگی کی اس مقدار تک محدود رکھیں جو " کفاف" کہلاتی ہے اور ضرورت سے زیادہ اسباب معیشت مہیا کرنے کی محنت ومشقت برداشت نہ کریں نیز حد اعتدال سے تجاوز کر کے اور حرص وہوس میں مبتلا ہو کر اپنی روحانی واخلاقی زندگی کو مضمحل نہ کریں۔
علماء نے لکھا ہے کہ " فقر اور غنا دونوں سے کفاف افضل ہے، اگرچہ بعض حالتوں میں غنا یعنی مال ودولت کی کثرت بھی ایک طرح کی فضیلت رکھتی ہے بشرطیکہ اس کثرت کی وجہ سے حاصل ہونے والی خوشحالی وآسودگی کسی بھی صورت میں دینی گمراہی، اخروی نقصان وخسران اور دنیا کی محبت وچاہ کا موجب نہ بنے بلکہ خیر وبھلائی اور عبادات وطاعات کی راہ زیادہ سے زیادہ اختیار کرنے میں مددگار ہو۔