مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان ۔ حدیث 1092

مال ودولت میں انسان کا اصل حصہ

راوی:

وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " يقول العبد : مالي مالي . وإن ماله من ماله ثلاث : ما أكل فأفنى أو لبس فأبلى أو أعطى فأقتنى . وما سوى ذلك فهو ذاهب وتاركه للناس " . رواه مسلم

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " بندہ کہتا رہتا ہے کہ میرا مال، میرا مال (یعنی جو شخص مالدار اور دولت مند ہوتا ہے وہ اپنے مال ودولت پر بہت فخر کرتا ہے اور دوسرے پر یہ جتانے کی کوشش کرتا ہے کہ میرے پاس مال ودولت ہے) اور حقیقت یہ ہے کہ اس کو اس مال ودولت میں سے جو کچھ حاصل ہوتا ہے وہ فی الجملہ تین چیزیں ہیں (اور ان تین چیزوں میں سے بھی صرف ایک چیز ایسی ہے جو اس کے لئے حقیقی نفع بخش اور باقی رہنے والی ہے، جب کہ بقیہ دو چیزیں ایسی ہیں جن کا تعلق دنیا سے ہے اور جو فنا ہوجانے والی ہے) ایک تو وہ چیز جس کو اس نے کھالیا اور ختم کردیا، دوسری وہ چیز جس کو اس نے پہن لیا اور بوسیدہ کردیا یعنی اتار کر پھینک دیا، اور تیسری وہ چیز جس کو اس نے اللہ کی راہ میں دیا اور (آخرت کے لئے ) ذخیرہ کرلیا، ان تینوں کے سوا اور جو کچھ ہے (جیسے زمین، جائیداد، مویشی، نوکر چاکر، روپیہ پیسہ اور دیگر قیمتی چیزیں وہ) سب ایسی ہیں جن کو وہ لوگوں کے لئے چھوڑ کر (اس دنیا سے) چلا جانے والا ہے۔" (مسلم)

تشریح :
اس ارشاد گرامی میں اس حقیقت کو واضح فرمایا گیا ہے کہ انسان محنت ومشقت کرکے دنیا کماتا ہے، مال ودولت حاصل کرتا ہے اور زمین وجائیداد بناتا ہے ، پھر اس مال ودولت اور زمین جائیداد پر فخر کرتا ہے اپنے کو ایک بڑا آدمی ظاہر کرتا ہے اور لوگوں پر اپنی امارت وثروت کا سکہ جمانے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہ اس بات کو محسوس نہیں کرتا کہ اول تو اس مال ودولت اور زمین جائیداد کا وبال بہت سخت ہے اور اس کی جواب دہی نہایت مشکل ہے ۔ دوسرے یہ کہ اس کے پاس جو کچھ مال ودولت اور زمین جائیداد ہے اس سے خود اس کی ذات کو بہت معمولی فائدہ پہنچتا ہے اور یہ چیزیں بہت کم عرصہ تک اس کا ساتھ دینے والی ہیں، چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بڑے نفسیاتی طریقہ پر واضح فرمایا کہ مال ودولت میں انسان کا اصل حصہ اور اس کا فی الجملہ فائدہ بس اتنا ہوتا ہے کہ وہ کچھ چیزوں کو تو کھاپی کر ختم کردیتا ہے ۔ کچھ چیزوں کو پہن برت کر پرانا کردیتا ہے اور اگر اسے توفیق ہوتی ہے تو کچھ چیزوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کر کے ان کو اپنے لئے ذخیرہ آخرت بنالیتا ہے، باقی تمام مال واسباب، ساری زمین جائیداد اور سب روپیہ پیسہ وغیرہ دوسروں کے لئے چھوڑ کر دنیا سے چلا جاتا ہے۔
مذکورہ بالا تینوں صورتوں میں سے آخری صورت (یعنی اپنے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا) بے شک ایسی چیز ہے جو انسان کو اس کے مال ودولت سے سب سے بیش قیمت اور ہمیشہ کے لئے باقی رہنے والا نفع پہنچاتی ہے، اور اگر اس اصل نفع کے لئے مال ودولت کو حاصل کیا جائے اور اس کو جمع کیا جائے تو یہ یقینا سمجھ میں آنے والی بات ہوگی ورنہ محض چند روزہ دنیاوی اور جزوی منافع کے لئے مال ودولت جمع کرنا اور اس کی وجہ سے اپنی بڑائی کا اظہار کرنا بے حقیقت بات ہوگی، چنانچہ اس ارشاد گرامی کے ان الفاظ او اعطی فاقتنی کے اس کو اللہ کی خوشنودی کے لئے فقراء وغرباء اور حاجتمندوں پر خرچ کرے تاکہ اس کا ثواب جمع ہوتا رہے اور پھر حاجت کے دن (روز حشر) کام آئے۔

یہ حدیث شیئر کریں