مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان ۔ حدیث 1154

حکمت و دانائی کس کو عطا ہوتی ہے

راوی:

وعن أبي هريرة وأبي خلاد رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال إذا رأيتم العبد يعطى زهدا في الدنيا وقلة منطق فاقتربوا منه فإنه يلقى الحكمة . رواهما البيهقي في شعب الإيمان

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابوخلاد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " جب تم کسی بندے کو دیکھو کہ اس کو (دنیا سے) بے رغبتی اور (لغو و بیہودہ کلام سے اجتناب اور ) کم گوئی عطا کی گئی ہے تو اس کی قربت و صحبت اختیار کرو کیونکہ اس کو حکمت و دانائی کی دولت دی گئی ہے" ۔ ان دونوں روایتوں کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے (اور پہلی حدیث بہت سے طرق سے ثابت ہے۔

تشریح
بعض روایتوں میں آیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ زیادہ دانا مومن کون ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ وہ مومن جو موت کو بہت یاد کرتا ہو اور موت کے بعد کی زندگی (یعنی آخرت ) کے لئے بہت تیاری کرتا ہو۔
مذکورہ بالا حدیث میں لفظ " حکمت" نقل کیا گیا ہے اس سے مراد نیک کرداری اور راست گفتاری ہے۔ اور جس بندے کو اللہ تعالیٰ حکمت عطا فرماتا ہے اس کی بڑی فضیلت منقول ہے جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے آیت (ومن یوتی الحکمۃ فقد اوتی خیرا کثیرا) یعنی جس شخص کو حکمت عطا کی گئی ، گویا اس کو بہت زیادہ خیر و بھلائی دی گئی۔
بہرحال حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص دنیا سے بے اعتنائی اور بے رغبتی اختیار کئے ہوئے ہو اور کم گوئی کی صفت سے متصف ہو وہ ایک ایسا مخلص و کامل عالم ہے جس کو اللہ نے نیک کرداری اور راست گفتاری کی دولت سے نواز دیا ہے اور وہ یقینا مرشد و مقتدا بننے کا اہل ہے کہ وہ بندگان اللہ کی تربیت و اصلاح اور رشد و ہدایت کی ذمہ داری کو پوری طرح انجام دے سکتا ہو، لہٰذا ہر ایک شخص پر واجب ہے کہ اس کی اطاعت و خدمت کرے، اسی کی صحبت و ہمنشینی اختیار کرے اور اس کے ساتھ ہمکلامی رکھے، بعض عارفین نے بہت خوب کہا ہے کہ اللہ کی صحبت اختیار کرو۔ اگر تم اس پر قادر نہ ہو سکو تو اس شخص کی صحبت و ہم نشینی اختیار کرو جو اللہ کے ساتھ صحبت رکھتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ وہ شخص وہی ہو سکتا ہے کہ جس میں کردار و احوال اور اقوال و افعال کے صحیح اور قابل اعتماد ہونے کی وہ علامت پائی جائے جو انشراح صدر کی علامت کے طور پر پچھلی حدیث میں بیان کی جا چکی ہے اور اس کی وہ حیثیت و شخصیت اس طرح ظاہر و ثابت ہو جائے کہ اس کی صحبت تمام دینی و دنیاوی معاملات پر بھلائی و بہتری کی صورت میں اثر انداز ہوتی ہو، وہ اپنے رفقاء اور معتقدین کو دنیاوی لذات سے کنارہ کش، تحصیل مال و جاہ سے بے رغبت اور مقدار حاجت و ضرورت سے زیادہ کی طلب و خواہش سے بے پرواہ بنا کر زاد عقبی کی طرف پہنچاتا ہو۔ ایسا شخص نہ صرف عالم و عارف کہلاتا ہے بلکہ انبیاء کا حقیقی وارث و خلیفہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسے عارف باللہ کی زیارت و خدمت اور اس کی صحبت و ہم نشینی کی نعمت عظمی سے سرفراز فرمائے (آمین ثم آمین)

یہ حدیث شیئر کریں