صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ تفاسیر کا بیان ۔ حدیث 2207

تفسیر سورت اذا جاء نصر اللہ!

راوی: موسیٰ بن اسمعیل ابوعوانہ ابوبشر سعید بن جبیر عباس

حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ أَبِي بِشْرٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ کَانَ عُمَرُ يُدْخِلُنِي مَعَ أَشْيَاخِ بَدْرٍ فَکَأَنَّ بَعْضَهُمْ وَجَدَ فِي نَفْسِهِ فَقَالَ لِمَ تُدْخِلُ هَذَا مَعَنَا وَلَنَا أَبْنَائٌ مِثْلُهُ فَقَالَ عُمَرُ إِنَّهُ مَنْ قَدْ عَلِمْتُمْ فَدَعَاهُ ذَاتَ يَوْمٍ فَأَدْخَلَهُ مَعَهُمْ فَمَا رُئِيتُ أَنَّهُ دَعَانِي يَوْمَئِذٍ إِلَّا لِيُرِيَهُمْ قَالَ مَا تَقُولُونَ فِي قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَی إِذَا جَائَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ فَقَالَ بَعْضُهُمْ أُمِرْنَا أَنْ نَحْمَدَ اللَّهَ وَنَسْتَغْفِرَهُ إِذَا نُصِرْنَا وَفُتِحَ عَلَيْنَا وَسَکَتَ بَعْضُهُمْ فَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا فَقَالَ لِي أَکَذَاکَ تَقُولُ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ فَقُلْتُ لَا قَالَ فَمَا تَقُولُ قُلْتُ هُوَ أَجَلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْلَمَهُ لَهُ قَالَ إِذَا جَائَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَذَلِکَ عَلَامَةُ أَجَلِکَ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ کَانَ تَوَّابًا فَقَالَ عُمَرُ مَا أَعْلَمُ مِنْهَا إِلَّا مَا تَقُولُ

(آیت) اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح بیان کیجئے اور اس سے مغفرت چاہئے بیشک وہ توبہ قبول کرنے والا ہے تواب سے مراد بندوں کی توبہ قبول کرنے والا ہے اور تواب آدمیوں کی صفت ہو تو معنی گناہ سے توبہ کرنے والا ہوتے ہیں۔
موسی بن اسماعیل ابوعوانہ ابوبشر سعید بن جبیر حضرت عباس سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھے بدر کے بوڑھوں کے پاس بٹھایا کرتے تھے ان میں سے بعض کے دل میں خیال پیدا ہوا اور کہا کہ اس کو تم ہمارے برابر بٹھاتے ہو حالانکہ ہم لوگوں کے تو اس جیسے بیٹے ہیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اس وجہ سے کہ تم جانتے ہو چنانچہ ایک دن انہوں نے بلایا اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو ان لوگوں کی مجلس میں شریک کیا ابن عباس کا بیان ہے کہ میرا خیال ہے کہ اس دن صرف اس لئے مجھے بلایا تھا تاکہ انہیں معلوم ہوجائے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اللہ کے قول اذا جاء نصر اللہ والفتح کے متعلق تم کیا کہتے ہو بعضوں نے کہا ہمیں حکم دیا گیا کہ اللہ کی حمد بیان کریں اور مغفرت طلب کریں جب کہ ہماری مدد کی جائے اور فتح ہو بعض خاموش رہے اور کچھ نہ کہا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھ سے کہا ابن عباس! تم بھی یہی کہتے ہو؟ میں نے کہا نہیں! انہوں نے کہا تو پھر کیا کہتے ہو؟ میں نے کہا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی طرف اشارہ ہے جس کی خبر اللہ نے آپ کو دی اللہ نے فرمایا (إِذَا جَاء نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ) 110۔ النصر) تو یہ آپ کی وفات کی علامت ہے فسبح بحمد ربک واستغفرہ انہ کان تو ابا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں اس کے متعلق اسے سے زیادہ نہیں جانتا جو تم کہتے ہو۔

Narrated Ibn Abbas:
'Umar used to make me sit with the elderly men who had fought in the Battle of Badr. Some of them felt it (did not like that) and said to 'Umar "Why do you bring in this boy to sit with us while we have sons like him?" Umar replied, "Because of what you know of his position (i.e. his religious knowledge.)" One day 'Umar called me and made me sit in the gathering of those people; and I think that he called me just to show them. (my religious knowledge). 'Umar then asked them (in my presence). "What do you say about the interpretation of the Statement of Allah:
'When comes Help of Allah (to you O, Muhammad against your enemies) and the conquest (of Mecca).' (110.1) Some of them said, "We are ordered to praise Allah and ask for His forgiveness when Allah's Help and the conquest (of Mecca) comes to us." Some others kept quiet and did not say anything. On that, 'Umar asked me, "Do you say the same, O Ibn 'Abbas?" I replied, "No." He said, 'What do you say then?" I replied, "That is the sign of the death of Allah's Apostle which Allah informed him of. Allah said:–
'(O Muhammad) When comes the Help of Allah (to you against your enemies) and the conquest (of Mecca) (which is the sign of your death). You should celebrate the praises of your Lord and ask for His Forgiveness, and He is the One Who accepts the repentance and forgives.' (110.3) On that 'Umar said, "I do not know anything about it other than what you have said."

یہ حدیث شیئر کریں