دعوت اسلام کی راہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیش آنے والے فقر و فاقہ اور آفات و آلام کا ذکر
راوی:
وعن أنس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لقد أخفت في الله وما يخاف أحد ولقد أوذيت في الله وما يؤذى أحد ولقد أتت علي ثلاثون من بين ليلة ويوم وما لي ولبلال طعام يأكله ذو كبد إلا شيء يواريه إبط بلال . رواه الترمذي قال ومعنى هذا الحديث حين خرج النبي صلى الله عليه وسلم هاربا من مكة ومعه بلال إنما كان مع بلال من الطعام ما يحمل تحت إبطه
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ " اللہ کے دین کو ظاہر کرنے اور اس کی طرف لوگوں کو بلانے کی راہ میں جس قدر مجھ کو خوف ودہشت میں مبتلا کیا گیا اس قدر کسی اور کو خوف ودہشت میں مبتلا نہیں کیا گیا، اور اللہ کے دین کی راہ میں جتنی ایذاء رسانیوں سے میں دوچار ہوا ہوں اتنی ایذاء رسانیوں سے کوئی اور دوچار نہیں ہوا ہے (یعنی ابتداء میں جب میں نے اسلام کی دعوت پیش کی اور اللہ کی وحدانیت اور اپنی رسالت کا اظہار و اعلان کیا تو اس وقت میں بالکل تنہا تھا، کوئی اور شخص میرے ساتھ نہیں تھا، چنانچہ اس راہ میں پیش آنے والے تمام تر مصائب و آلام اور ہر طرح کی دہشت انگیزی کو برداشت کرنے والا واحد شخص میں تھا) بلاشبہ مجھ پر متواتر تیس دن اور تیس راتیں ایسی گزری ہیں جن میں میرے اور بلال کے لئے کھانے پینے کا ایسا کوئی سامان نہیں تھا جس کو کوئی جگردار (یعنی حیوان) کھاتا ہے (یعنی ان دنوں ہم دونوں کے پاس کھانے کی ان چیزوں میں سے بھی کوئی چیز نہیں تھی جس کو جانور کھاتے ہیںِ چہ جائیکہ آدمیوں کے کھانے پینے کی کوئی چیز ہوتی) علاوہ اس نہایت معمولی سی چیز کے جس کو بلال اپنی بغل میں چھپائے رہتے تھے اور ظاہر ہے کہ جس چیز کو انسان اپنی بغل میں دبالے اس کی حیثیت ہی کیا ہوتی ہے خاص طور پر اس صورت میں جب کہ باہر سے یہ نظر بھی نہ آئے کہ بغل میں کیا چیز ہے۔ ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو صورت حال بیان فرمائی ہے اس کا تعلق اس وقت سے ہے جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ سے نکلنے پر مجبور ہو گئے تھے اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ نیز حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس کھانے کی چیزوں میں سے صرف اتنا تھا جس کو وہ اپنی بغل میں دبائے رہتے تھے" ۔
تشریح
حدیث کے ابتدائی جملوں کی وضاحت طیبی نے وہی کی ہے جو ترجمہ میں (بین القوسین) نقل کی گئی ہے۔ لکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ " اس قدر کسی اور کو خوف ودہشت میں مبتلا نہیں کیا گیا اور اتنی زیادہ ایذاء رسانیوں سے کوئی اور دوچار نہیں ہوا " سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مراد یہ تھی کہ اللہ کا دین پہنچانے کی راہ میں جس قدر خوف ودہشت میں مجھے مبتلا کیا گیا ہے اور جس قدر اذیتیں اور تکلیفیں میں نے برداشت کی ہیں اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مااوذی نبی مثل ما اوذیت (یعنی جتنی زیادہ ایذاء مجھے پہنچائی گئی ہے اتنی زیادہ کسی اور نبی کو نہیں پہنچائی گئی) اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دراصل اللہ کے دین کی راہ میں ایذاء اور تکلیف کا پہنچانا ہر شخص کی ہمت و حیثیت اور مرتبہ کے مطابق ہوتا ہے، چونکہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہمت وحیثیت سب سے زیادہ بلند تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مرتبہ سب سے اونچا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت و حقانیت سب سے زیادہ واضح تھی۔ اور ایمان کو پھیلانے اور لوگوں کو راہ راست پر لانے کی تمنا وخواہش اور اس کے تئیں سعی تڑپ سب سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تھی اس لئے اس راہ میں سب سے زیادہ ایذاء رسانی اور مصائب کا سامنا بھی آپ ہی کو کرنا پڑا۔ آیت (ولقد اتت علی) الخ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے فقر و فاقہ کے انتہائی شدید وسخت دنوں کا ذکر جس انداز میں فرمایا اس سے ایک تو ان سخت مصائب و آلام کی طرف اشارہ کرنا مقصود تھا جن سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دعوت اسلام کی راہ میں دوچار ہونا پڑا اور ظاہر ہے کہ فقر و فاقہ سے زیادہ سخت اور کوئی مشقت نہیں ہو سکتی، اور دوسرے اصل مقصد امت کے لوگوں کو تعلیم و تلقیں تھا کہ اللہ کے دین کی راہ میں اگر بڑی سے بڑی صعوبت بھی برداشت کرنا پڑے تو اس کو بطیب خاطر انگیز کیا جائے اور بہر صورت راہ استقامت پر گامزن رہا جائے۔
امام ترمذی نے جو یہ کہا ہے کہ " اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے" اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیان فرمودہ صورت حال کا تعلق اس وقت سے نہیں جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ سے مدینہ کے لئے ہجرت فرمائی تھی کیونکہ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت بلال نہیں تھے۔ بلکہ یہ واقعہ غالباً اس وقت کا ہے جب آپ ابتدائے اسلام میں مکہ سے طائف تشریف لے گئے تھے چنانچہ نبوت کا دسواں سال تھا اور شوال کا مہینہ کہ آپ کے چچا ابوطالب کی وفات ہو گئی ۔ اور پھر تین دن بعد یا پانچ دن کے بعد ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی اللہ کو پیاری ہو گئیں، یہ دونوں سانحے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے نہایت سخت تھے اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سال کو عام الحزن یعنی " غم کا سال" فرمایا۔ قریش مکہ جو پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو طرح طرح کی اذیتوں کا نشانہ بنا رہے تھے، اب ان دونوں، ہستیوں خصوصاً ابوطالب کی وفات کے بعد ان کو اپنی جابرانہ کاروائیوں کا موقع مل گیا، چنانچہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایذاء رسانی میں بڑی شدت پیدا کر دی، ادھر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اہل مکہ کے قبول اسلام سے مایوسی کی صورت پیدا ہونے لگی تو اسی سال یعنی ١٠نبوی ، آخر ماہ شوال میں آپ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ساتھ لے کر پیادہ پا مکہ سے طائف تشریف ہے گئے، اور اہل طائف کو کلمہ حق کی طرف دعوت دی، اور متواتر ایک ماہ تک ان کی تبلیغ و ہدایت میں مصروف رہے، مگر انہوں نے آپ کی ایک بات نہیں سنی اور کسی ایک شخص کو بھی قبول حق کی توفیق نہیں ہوئی، بلکہ ظالموں نے اپنے بچوں اور اوباش لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے لگا دیا کہ جس قدر ہو سکے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایذاء پہنچائیں چنانچہ ان بدبختوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پتھر برسانے شروع کئے جس سے سردار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم شریف زخمی ہو جاتے تھے اور اتنا خون بہتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین مبارک اس سے بھر جاتے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پتھر کے زخموں سے چور ہو کر گر پڑتے تھے تو وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں بازو پکڑ کر کھڑا کر دیتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آگے چلتے تو پھر پتھراؤ شروع کر دیتے تھے، اور خوش ہو کر تالیاں بجاتے اور قہقہے لگاتے تھے۔ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جس طرف سے پتھر آتا ہوا دیکھتے اس طرف خود کھڑے ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بچاتے اور پتھر کو اپنے سر پر لیتے تھے یہاں تک کہ حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سر بھی پتھروں کے زخم سے چور چور ہو گیا۔ اسی دوران اللہ تعالیٰ نے بادل کا ایک ٹکڑا بھیجا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سایہ فگن ہو گیا اور پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے ایک اور فرشتے کے ساتھ حاضر ہو کر عرض کیا کہ آپ کے پروردگار نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قوم کی ساری باتیں سنیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جو کچھ سلوک انہوں نے کیا ہے اس کو دیکھا، میرے ساتھ یہ وہ فرشتہ ہے جس کے سپرد پہاڑوں کی خدمت ہے، اللہ پاک کا اس کو حکم ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمائیں تو طائف کے گرد کی دونوں پہاڑیاں باہم ٹکرا دی جائیں۔ اور ان دونوں کے درمیان اہل طائف کو اس طرح دل دیا جائے جس طرح چکی کے دو پاٹوں میں دانہ دل جاتا ہے۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی انتقامی کاروائی کی اجازت دے دیتے، یہ کیسے ممکن تھا؟ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس امر کی اجازت نہیں دی اور بارگاہ رب العزت میں یوں گویا ہوئے۔ ارحم الراحمین! تونے مجھ کو سخت دل اور انتقام کا خو گر نہیں بنایا، میں لوگوں پر تیرے عذاب نازل کرانے نہیں آیا ہوں، مجھے اپنی قوم کے ہلاک و تباہ ہونے کا سبب نہ بنا، اگر یہ نیست نابود ہو گئے تو اس سے مجھے کیا حاصل ہوگا، ہاں اگر یہ زندہ رہے تو امید ہے کہ شاید ان کی نسلوں میں سے وہ لوگ پیدا ہوں جو تیری وحدانیت کے ساتھ پرستش کریں، اور تیرے دین کا جھنڈہ بلند کریں! پروردگار یہ میرے مرتبہ سے ناواقف ہیں، ان کی آنکھوں پر جہل و نادانی کی پٹی بندھی ہوئی ہے، اگر تو ان کو وہ بینائی عطا فرما دے جس سے یہ میری شان پیغمبر دیکھ لیں تو امید ہے کہ ایمان سے مشرف ہو جائیں۔
بالآخر رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ماہ بعد طائف سے اس طرح واپس ہوئے کہ فقر و فاقہ کے تعب اور ایذاء رسانیوں کے زخم سے جسم نڈھال تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ٹخنے شریف لہو لہان تھے، مگر زبان پر حرف بد دعا کے بجائے دعائے ہدایت کے الفاظ تھے۔
سفر طائف کا یہ پورا واقعہ تفصیل کے ساتھ تاریخ و سیر کی کتابوں میں دیکھا جا سکتا ہے یہاں اس کا ذکر اجمالی طور پر کیا گیا ہے اور وہ بھی اس لئے کہ روایت کے آخر میں اس طرف اشارہ ہے۔ رہی یہ بات کہ حدیث میں اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہونا مذکور ہے، جب کہ مذکورہ بالا واقعہ میں حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر ہے تو ان دونوں میں کوئی تضاد اور منافات نہیں کیونکہ اغلب ہے کہ حضرت بلال اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہما دونوں ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رہے ہوں گے، تاہم تاریخ و سیر کی کتابوں میں اس موقعہ پر حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہی ہونا ذکر کیا جاتا ہے۔