اچھے اعمال کے ساتھ زیادتی عمر کی فضیلت
راوی:
وعن عبيد بن خالد أن النبي صلى الله عليه وسلم آخى بين رجلين فقتل أحدهما ثم مات الآخر بعده بجمعة أو نحوها فصلوا عليه فقال النبي صلى الله عليه وسلم ما قلتم ؟ قالوا دعونا الله أن يغفر له ويرحمه ويلحقه بصاحبه . فقال النبي صلى الله عليه وسلم فأين صلاته بعد صلاته وعمله بعد عمله ؟ أو قال صيامه بعد صيامه لما بينهما أبعد مما بين السماء والأرض . رواه أبو داود والنسائي
حضرت عبید بن ابی خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو شخصوں کے درمیان بھائی چارہ کرا دیا تھا (یعنی ان دونوں کو جو صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے تھے، بھائی بھائی بنا دیا تھا ) ان میں سے ایک شخص اللہ کی راہ میں مارا گیا (یعنی جہاد میں شہید ہو گیا) اور اس کی شہادت کے ایک ہفتہ یا قریب ایک ہفتہ کے بعد دوسرا شخص بھی صاحب فراش ہو کر فوت ہو گیا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس شخص کی نماز جنازہ پڑھی اور جب وہ نماز جنازہ سے فارغ ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تم نے مرحوم کی جو نماز جنازہ پڑھی ہے اس میں تم نے کیا پڑھا ہے اور کیا کہا ہے (یعنی تم نے نماز جنازہ میں مرحوم کے لئے کیا دعا کی ہے؟ ) صحابہ نے عرض کیا کہ ہم نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی ہے کہ اس کے گناہ بخش دے، اس پر رحمت نازل کرے اور اس کو اس کے (شہید ہو جانے والے) ساتھی کے پاس جنت کے اعلیٰ درجہ میں پہنچا دے جیسا کہ وہ دونوں اس دنیا میں اتفاق و اتحاد کے ساتھ اور یکجا رہتے تھے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا۔ تو پھر اس کی وہ نماز کہاں گئی جو اس نے اپنے ساتھی کی نماز کے بعد کے دنوں میں پڑھی تھی، اور اس کے ان اعمال کا ثواب کہاں گیا جو اس نے اپنے ساتھی کے اعمال کے بعد (کے دنوں میں) کئے تھے۔ یا یہ فرمایا کہ اس کے ان روزوں کا ثواب کہاں گیا جو اس نے اپنے اس ساتھی کے روزوں کے بعد کے دنوں میں رکھے تھے؟ (یعنی تم نے مرحوم کے حق میں جو یہ دعا کی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو اس کے اس بھائی و ساتھی کے پاس جنت میں پہنچائے جو شہید ہوا ہے تو اس کا ملطب یہ ہے کہ تمہارے گمان میں اس شخص کا درجہ و مرتبہ اپنے اس شہید بھائی کے درجہ و مرتبہ سے کم ہے۔ اگر تم ایسا سمجھتے ہو تو پھر بتاؤ کہ اس مرحوم کی وہ نمازیں و روزے اور وہ دوسرے اچھے اعمال اور ان کا اجر و ثواب کہاں جائے گا جو اس نے اپنے بھائی کے انتقال کے بعد کے دنوں میں کئے ہیں، بلاشبہ جنت کے اندر اور قرب الٰہی میں دو شخصوں کے درمیان جو فاصلہ ہے وہ اس فاصلہ سے بھی زیادہ ہے جو زمین و آسمان کے درمیان ہے۔ ( ابوداؤد ، نسائی)
تشریح
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ یہ شخص اپنے ساتھی کی شہادت کے بعد جتنے زائد دنوں تک زندہ رہا اور ان دنوں میں اس نے جو عبادات و اعمال صالحہ کئے ان کی وجہ سے اس کا مرتبہ اپنے شہید بھائی و ساتھی کے مرتبہ سے بھی بلند ہو گیا ہے۔ اس موقعہ پر بجا طور پر یہ اشکال پیدا ہو سکتا ہے کہ بعد میں وفات پانے والا مذکورہ شخص محض ان عبادات و اعمال کی وجہ سے کہ جو اس نے ایک ہفتہ کے دوران کئے تھے، اس شخص پر فضیلت کیسے پا سکتا ہے جو اس سے پہلے میدان جنگ میں شہید ہو گیا تھا اور جب کہ اس نے اللہ کی راہ میں اور دین حق کی سربلندی کی خاطر شہادت کا درجہ پایا اور جام شہادت بھی اس نے اس زمانہ میں نوش کیا جب کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا میں تشریف فرما تھے ، اسلام اپنے ابتدائی زمانہ کے نہایت پر آشوب حالات سے گزر رہا تھا، اور دین کے مددگاروں کی کمی تھی۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اس دوسرے شخص کو پہلے شخص (شہید) کے مقابلہ زیادہ افضل قرار دینا محض اس کے ان اعمال کی وجہ سے نہیں ہے جو اس نے اس ایک ہفتہ کے دوران کئے تھے بلکہ اصل بات یہ تھی کہ وہ شخص بھی اسلامی لشکر ہی کا ایک فرد تھا اور اللہ کی راہ میں مرابط کے فرائض انجام دیا کرتا تھا نیز میدان جنگ میں شہید ہونے کی صادق نیت رکھتا تھا، لہٰذا اس نیت کا یہ پھل اس کو ملا کہ اس کو گویا شہادت کا درجہ دیا گیا جس کی وجہ سے وہ اپنے ساتھی کا ہم مرتبہ ہو گیا اور پھر اس نے اس ساتھی کی شہادت کے بعد کے دنوں میں جو نیک اعمال کئے ان کی وجہ سے اس کا مرتبہ اور زیادہ بڑھ گیا۔