عبادت گزار زندگی کی اہمیت
راوی:
وعن محمد
بن أبي عميرة وكان من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم قال إن عبدا لو خر على وجهه من يوم ولد إلى أن يموت هرما في طاعة الله لحقره في ذلك اليوم ولود أنه رد إلى الدنيا كيما يزداد من الأجر والثواب رواهما أحمد .
حضرت محمد بن ابوعمیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ہیں فرماتے ہیں کہ " اگر کوئی بندہ اپنی پیدائش کے وقت سے، بڑھاپے میں مرنے تک اپنی پوری اور طویل زندگی کے دوران صرف اللہ کی طاعت وعبادت میں سرنگوں رہے تو وہ بھی اس قیامت کے دن عمل کا ثواب دیکھ کر اپنی اس تمام طاعت وعبادت کو بہت کم جانے گا اور یہ آرزو کرے گا کہ کاش اس کو دنیا میں پھر بھیج دیا جائے تاکہ اس کا اجر و ثواب زیادہ ہو جائے۔ (ان دونوں روایتوں کو امام احمد نے نقل کیا ہے)۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ عمر کا طویل ہونا اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے بشرطیکہ اس لمبی عمر کو یوں ہی ضائع نہ کر دیا جائے بلکہ اس کو اللہ کی اطاعت وعبادت، دین کی خدمت اور اچھے کاموں میں صرف کیا جائے۔ لہٰذا عمر جس قدر زیادہ ہوگی اس قدر اعمال صالحہ بھی زیادہ ہوں گے اور اعمال صالحہ جتنے زیادہ ہوں گے اتنا ہی زیادہ اجر و ثواب بھی حاصل ہوگا جو قیامت کے دن سب سے بڑا سرمایہ ہوگا۔
چنانچہ عبادت گزار زندگی کی اسی اہمیت کو ظاہر کرنے کے لئے یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ کوئی شخص اس دنیا میں پیدا ہوتے ہی، یا یہ کہ بالغ ہوتے ہی اللہ کی طاعت وعبادت میں مصروف ہو جائے اور بڑھاپے کی عمر میں پہنچ کر وفات پانے کے وقت تک بس سجدہ و نماز ہی میں منہ کے بل پڑا رہے اور اس کی زندگی کا کوئی بھی لمحہ دنیاوی کام میں صرف نہ ہو تو وہ شخص بھی قیامت کے دن طاعت وعبادت اور اعمال صالحہ کے اجر و ثواب کی فضیلت واہمیت دیکھ کر اپنی اس طویل عمر کی تمام طاعات وعبادات کو بہت کم جانے گا اور یہی آرزو کرے گا کہ کاش! مجھے طاعت وعبادت اور اچھے اعمال کرنے کا ارادہ اور موقع مل جائے اور مجھے دنیا میں واپس کر دیا جائے تاکہ میں وہاں زیادہ سے زیادہ عمل کر سکوں اور زیادہ سے زیادہ اجر و ثواب لے کر یہاں آؤں۔