شہرت یافتہ زندگی پر خطر ہے
راوی:
وعن أنس
عن النبي صلى الله عليه وسلم قال بحسب امريء من الشر أن يشار إليه بالأصابع في دين أو دنيا إلا من عصمه الله . رواه البيهقي في شعب الإيمان .
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ انسان کی برائی کے لئے اتنا کافی ہے کہ دین یا دنیا کے اعتبار سے اس کی طرف انگلیوں سے اشارہ کیا جائے۔ الاّ یہ کہ کسی کو اللہ تعالیٰ ہی محفوظ رکھے۔ (بیہقی)
تشریح
دنیاوی اعتبار سے مشہور ومعروف ہونا تو ظاہر ہے کہ آفتوں اور فتنوں میں مبتلا ہو جانے اور ایمانی امن وسلامتی کی راہ سے دور جا پڑنے کا سبب ہے ہی، لیکن اگر کوئی شخص اپنی زندگی کے اعتبار سے مشہور ومعروف ہوتا ہے تو وہ بھی خطرہ سے خالی نہیں، کیونکہ اس صورت میں اس کے ریاء کار ہونے کا گمان کیا جا سکتا ہے، اور ہو سکتا ہے کہ وہ اس شہرت کی وجہ سے اپنی قیادت و پیشوائی کی طلب و جاہ میں مبتلا ہو جائے یہ تمنا کرنے لگے کہ لوگ اس کو اپنا مقتدا اور اپنی عقیدت واحترام کا مرکز بنا لیں اور اس طرح وہ شیطان کے بہکانے اور نفس امارہ کے اکسانے کی وجہ سے ان نفسانی خواہشات کی اتباع میں مبتلا ہو سکتا ہے جو ایسے موقعوں کی تاک میں رہتی ہیں۔ چنانچہ ایسے بندگان اللہ کم ہی ہوتے ہیں جنہیں عوامی شہرت وناموری حاصل ہوئی اور وہ اس کے نتیجہ میں پیدا ہو جانے والی برائیوں سے محفوظ ومامون رہے، ہاں وہ بندگان اللہ خاص کر جنہیں اللہ تعالیٰ اپنا مقرب ومحبوب بنا لیتا ہے اور وہ صدیقیت کے مرتبہ پر فائز ہوتے ہیں وہ تمام عالم کی شہرت وناموری رکھنے کے باوجود اس کی برائیوں سے محفوظ رہتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اس بلند ترین مرتبہ پر فائز ہی اس وقت ہوتے ہیں جب کہ ان کے ظاہر وباطن سے تمام برائیاں مٹ چکی ہوتی ہیں اور ان کا نفس پوری طرح پاکیزہ ہو جاتا ہے، جیسا کہ مشائخ کرام کہتے ہیں کہ آخر مایخرج من رأس الصدیقین حب الجاہ۔ لہٰذا انسان کی بھلائی وبہتری اسی میں ہے اور ایمان و کردار کی سلامتی وحفاظت اسی صورت میں زیادہ ممکن ہے جب کہ وہ گوشہ نشینی وگمنامی اور یکسوئی کی زندگی کو شہرت کی زندگی پر ترجیح دے۔
" الاّ یہ کہ کسی کو اللہ تعالیٰ ہی محفوظ رکھے" حدیث کے اس جملہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شہرت وناموری کا نقصان دہ اور برائی کا باعث ہونا اس شخص کے حق میں ہے جس کے ظاہر و باطن پر جاہ واقتدار اور شہرت وناموری کی طلب وخواہش کا سکہ رواں ہو، ورنہ تو بندگان اللہ اس طلب وخواہش سے محفوظ ومامون اور اپنے ظاہر وباطن کے اعتبار سے مخلص پاکباز ہوتے ہیں وہ اس بات سے مستثنی ہیں، کیونکہ عوامی مقبولیت وشہرت اور جاہ واقتدار بذات خود کوئی بری چیز نہیں ہیں بلکہ اللہ کی وہ نعمت ہیں جو وہ اپنے پاک نفس بندوں کو عطا فرماتا ہے جو ان چیزوں کے اہل ومستحق ہوتے ہیں اور جن کے حق میں وہ چیزیں فتنہ وبرائی کا باعث بننے کی بجائے بلندی درجات کا باعث بنتی ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنے بندگان خاص کی نسبت سے یہ فرمایا ہے کہ آیت (واجعلنا للمتقین اماما۔)
منقول ہے کہ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کی بے پناہ عوامی شہرت ومقبولیت دیکھ کر ایک شخص نے ان سے کہا کہ آپ تو لوگوں میں اس قدر مشہور ونمایاں ہو گئے ہیں۔ جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو یہ فرمایا ہے کہ بحسب امری من الشر الخ۔ حضرت حسن بصری نے جواب دیا کہ ارشاد گرامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعلق اس شخص سے ہے جو دین کے اعتبار سے بدعتی اور دنیا کے اعتبار سے فاسق ہو (یعنی جو شخص دنیا میں مالداری وثروت رکھتا ہے اور اس مالداری وثروت کی وجہ سے مشہور معروف ہو، لیکن فسق وفجور میں مبتلا نہ ہو اور دین کے اعتبار سے کتاب وسنت کی اتباع وپیروی کرتا ہو تو وہ شخص اس حکم میں داخل نہیں ہے ۔ جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد گرامی سے واضح ہوتا ہے۔