ذکر اللہ اور خوف خداوندی کی فضیلت
راوی:
وعن أنس
عن النبي صلى الله عليه وسلم قال يقول الله جل ذكره أخرجوا من النار من ذكرني يوما أو خافني في مقام رواه الترمذي والبيهقي في كتاب البعث والنشور .
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ قیامت کے دن اللہ کہ جس کا ذکر بہت باعظمت ہے (دوزخ پر متعین فرشتوں سے) فرمائے گا کہ اس شخص کو دوزخ سے نکال لو جس نے ایک دن بھی (یعنی کسی ایک وقت بھی) مجھ کو یاد رکھا ہے، یا کسی موقع پر مجھ سے ڈرا ہے۔ (ترمذی اور بیہقی نے اس روایت کو کتاب البعث والنشور میں نقل کیا ہے)
تشریح
" اس شخص سے مراد وہ مومن ہے جو مرتے وقت تک اخلاص کے ساتھ ایمان پر قائم رہا تھا لیکن گناہوں اور بدعملی کی وجہ سے دوزخ میں ڈال دیا گیا تھا۔
" یا کسی موقع پر مجھ سے ڈرا ہے" یعنی اس کی دنیاوی زندگی میں کوئی ایسا موقع آیا ہو جب وہ کسی گناہ میں مبتلا ہونے سے محض میرے خوف کی وجہ سے باز رہا ہو۔ چنانچہ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے ۔ آیت (واما من خاف مقامہ ربہ ونہی النفس عن الہوی فان الجنۃ ہی الماوی)۔ اور جو شخص دنیا میں اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا ہوگا اور نفس کو خواہش سے روکا ہوگا سو جنت میں اس کا ٹھکانا ہوگا۔
طیبی کہتے ہیں کہ ذکر اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے سے مراد وہ " ذکر" ہے جس میں زبان کے ساتھ دل بھی شریک ہو اور جس کو اخلاص کہتے ہیں، اخلاص کا مطلب یہ ہے خلوص دل اور صدق نیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو ایک جاننا اور ماننا ورنہ یوں تو کافر بھی زبان سے اللہ کا ذکر کرتے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ ان کے اس ذکر کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا، کیونکہ ان کا دل اللہ کی وحدانیت اور صدق واخلاص سے قطعا خالی ہوتا ہے اس بات کی تائید حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے کہ۔ من لاالہ الا اللہ خالصا من قلبہ دخل الجنۃ۔ جس شخص نے خلوص دل کے ساتھ لا الہ الا اللہ کہا وہ جنت میں جائے گا۔
واضح رہے کہ " خوف خداوندی" سے مراد وہ خوف ہے جس کی وجہ سے بندہ اپنے اعضاء جسم کو گناہوں سے باز اور طاعات وعبادات میں مشغول رکھے ورنہ ایسے خوف کا کوئی اعتبار نہیں جو پیدا تو ہو مگر اس کی کار فرمائی اعضاء جسم پر ظاہر نہ ہو کہ نہ تو وہ گناہوں سے باز رکھے اور نہ طاعات وعبادات میں لگائے رکھے، بلکہ حقیقت میں اس کو خوف الٰہی نہیں کہا جا سکتا ۔ اس کو تو " حدیث نفس" یعنی ایک ایسا وسوسہ اور ایک ایسی تحریک کہا جا سکتا ہے جو کسی ہولناک چیز کے اسباب وآثار دیکھنے کے وقت طبیعت پر طاری ہو جاتی ہے ۔ اور جب وہ اسباب وآثار غائب ہو جاتے ہیں تو دل پھر غفلت میں پڑ جاتا ہے۔ مشہور بزرگ حضرت فضیل نے بڑی حکیمانہ بات کہی ہے کہ جب تم سے پوچھا جائے کہ کیا تم اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہو؟ تو اس سوال کے جواب میں خاموشی اختیار کر لینی چاہئے کیونکہ اگر تم نے جواب میں کہا کہ نہیں ، تو یقینا کافر ہو جاؤ گے اور اگر کہا کہ ہاں ، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تم نے جھوٹ بولا ہے۔ گویا حضرت فضیل نے اس طرف اشارہ فرمایا کہ اصل میں اللہ کا خوف تو وہی ہے جو اعضاء جسم کو گناہوں میں ملوث ہونے قطعی باز رکھے۔
بہرحال اس حدیث میں یہ بشارت ہے کہ جس مسلمان نے ایک بار بھی از راہ اخلاص اللہ کو یاد کر لیا اور کسی ایک موقع پر بھی حقیقی معنی میں اللہ کے عذاب کا خوف کھایا تو بالآخر اللہ کا خوف کھایا تو بالآخر وہ دوزخ کے عذاب سے نجات پائے گا بلکہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اس کو دوزخ میں داخل ہی نہ کرے اور ابتداء جنت میں بھیج دے ، بے شک آیت (یغفر لمن یشاء ویعذب من یشاء) اسی کی صفت اور شان ہے۔