حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ سے کیا کہا
راوی:
وعن
أبي بردة بن أبي موسى قال قال لي عبد الله بن عمر هل تدري ما قال أبي لأبيك ؟ قال قلت لا . قال فإن أبي قال لأبيك يا أبا موسى هل يسرك أن إسلامنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وهجرتنا معه وجهادنا معه وعملنا كله معه برد لنا ؟ وأن كل عمل عملناه بعده نجونا منه كفافا رأسا برأس ؟ فقال أبوك لأبي لا والله قد جاهدنا بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم وصلينا وصمنا وعملنا خيرا كثيرا . وأسلم على أيدينا بشر كثير وإنا لنرجو ذلك . قال أبي ولكني أنا والذي نفس عمر بيده لوددت أن ذلك برد لنا وأن كل شيء عملناه بعده نجونا منه كفافا رأسا برأس . فقلت إن أباك والله كان خيرا من أبي . رواه البخاري . و
حضرت ابوبردہ بن ابی موسیٰ اشعری (جو اونچے درجے کے تابعین میں سے ہیں) کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت عبداللہ بن عمر مجھ سے کہنے لگے کہ تمہیں معلوم ہے کہ میرے والد حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمہارے والد (حضرت ابوموسی اشعری) سے کیا کہا تھا؟ حضرت ابوبردہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے جواب دیا کہ میں نہیں جانتا۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا میرے والد نے تمہارے والد سے کہا تھا کہ ابوموسی کیا یہ بات تمہارے لئے خوش کن ہے کہ ہمارا اسلام جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے ملا ہوا تھا) ہماری ہجرت جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھی، ہمارا جہاد جو آپ کے ساتھ تھا اور ہمارے سارے اعمال (یعنی نماز، روزے، زکوۃ حج اور اس طرح کے دوسرے عبادتی اعمال جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے، وہ سب ہمارے لئے ثابت وبرقرار رہیں اور ہم نے جو اعمال رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کئے ہیں وہ اگر ہم سے برابر سرابر بھی چھوٹ جائیں تو ہماری نجات کے لئے کافی ہیں تمہارے والد نے یہ سن کر میرے والد سے کہا کہ نہیں اللہ کی قسم ایسا نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد جہاد کیا ہے ، نمازیں پڑھیں ہیں ، روزے رکھے ہیں اور دوسرے بہت نیک اعمال جیسے صدقہ وخیرات وغیرہ کئے ہیں اور بہت سے لوگ ہمارے ہاتھوں پر یعنی ہماری وجہ سے مسلمان ہوئے ہیں اور یقینا ہم مذکورہ چیزوں کا اجر وثواب پانے کی امید رکھتے ہیں جو ہمارے پہلے اعمال کے ثواب میں اضافہ ہی کریں گے میرے والد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ تمہاری بات صحیح ہے لیکن میں تو قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں عمر کی جان ہے، اس بات کو زیادہ پسند کرتا ہوں کہ ہم نے جو اعمال رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کئے ہیں وہ ثابت وبرقرار رہیں اور جو اعمال ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کئے ہیں ان سے برابر سرابر چھوٹ جائیں ۔ حضرت ابوبردہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ یہ سن کر میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ تمہارے والد، اللہ کی قسم میرے والد سے بہتر تھے۔ (بخاری)
تشریح
" برابر سرابر چھوٹ جائیں" ان الفاظ کے ذریعے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے اس احساس کا اظہار کیا کہ ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اعمال اختیار کئے جو نیک کام کئے اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کس زمرے میں رکھے گئے آیا وہ قبول کئے گئے یا ان کو ناقابل قبول قرار دیا گیا ہے، اس صورت میں ہماری یہ تمنا ہی بہتر ہے کہ ان اعمال کا نہ تو ہمیں کوئی نفع پہنچے نہ نقصان، نہ ان پر ثواب ملے اور نہ وہ عذاب کا موجب بنیں گویا اگر وہ اعمال ہمارے لئے ثواب کا موجب نہیں بن سکتے تو اللہ کرے وہ ہمارے حق میں عذاب کا بھی سبب نہ ہوں۔
طاعت ناقص ، موجب غفراں نشود
راضیم گر مدد علت عصیاں نشود
چنانچہ ہم نے جو اعمال حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سایہ تربیت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت کی نورانیت کے سبب کئے ہیں اور بجا طور پر ان کی قبولیت کا گمان رکھتے ہیں، اگر وہی ثابت وبرقرار رہیں تو زہے سعادت، اور جو اعمال ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کئے ہیں اور وہ نقصان وخرابی سے خالی نہیں تھے، اگر ان سے ہم برابر سرابر بھی چھوٹ جائیں تو یہی بہت غنیمت ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس احساس کی بنیاد دراصل اس حقیقت پر تھی کہ اتباع کرنے والا علم وعمل کے تئیں اعتقاد واخلاص میں حجت وفساد کا خود ذمہ دار نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے متبوع کی ذمہ داری کے تحت ہوتا ہے، جیسا کہ مقتدی کی نماز کا معاملہ ہے کہ اس کی نماز کا صحیح ادا ہونا امام کی نماز کے صحیح ادا ہونے پر انحصار رکھتا ہے کہ اگر امام کی نماز صحیح ادا نہیں ہوئی تو مقتدی کی نماز بھی صحیح ادا نہیں ہو سکتی ، اسی طرح مقتدی کی نماز کا فاسد امام کی نماز کے فاسد ہونے پر انحصار رکھتا ہے لہٰذا جو اعمال حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راہنمائی میں ادا ہوئے ان کا صحت وخوبی کے ساتھ ادا ہونا اور درجہ کمال تک پہنچنا شک وشبہ سے بالاتر ہے۔ اسی طرح جو عبادتی اعمال حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد وقوع پذیر ہوئے ان کا نیتوں کے غیر اور حالات کی خرابی سے متاثر ہونا بعید از امکان نہیں ، چنانچہ اس بات کا اقرار تو خود صحابہ کے ہاں ان الفاظ میں ملتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا سے رخصت ہوئے تو ہم نے ابھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر پر مٹی ڈالنے کے بعد اپنے ہاتھ بھی نہیں جھاڑے تھے اور ہنوز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سپرد خاک کرنے میں مشغول ہی تھے کہ ہم نے اپنے دلوں میں ایک بڑا تغیر محسوس کیا ، اس کا مطلب یہ تھا کہ آفتاب نبوت کے غروب ہو جانے سے پوری کائنات پر جو اندھیرا پھیلا اس نے ان صحابہ کے قلوب کو بھی متاثر کیا اور انہیں محسوس ہوا کہ ہم زمانہ رسالت پناہ میں ایمان واخلاص اور یقین واعتقاد کے جس مقام پر تھے اب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اس مقام سے نیچے آ گئے۔ چنانچہ اگر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ہم نے جو عبادت اعمال کئے ، ان سے برابر سرابر بھی چھوٹ جانا ہمارے حق میں بڑا غنیمت ہے تو انہوں نے یقینا بڑی عارفانہ بات فرمائی۔ واضح رہے کہ اس بات کا تعلق جب ان پاک نفوس سے جو جلیل القدر صحابہ تھے اور جو اپنے ایمان واعتقاد اور عمل و کردار کے اعتبار سے پوری امت سے افضل فرد تھے تو ظاہر ہے کہ ان لوگوں کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے، اور ان کا کیا ٹھکانا ہوگا جو ان پاک نفسوں کے بھی بعد اس دنیا میں آئے اور ان کی طاعات وعبادات عجب و غرور اور ریا وغیرہ سے بھری ہوئی ہیں؟ سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک پر اپنا فضل وکرم اور رحمت خاص کا سایہ کرے یعنی بدکاروں کو اپنے نیک بندوں کے طفیل میں حسن عاقبت سے نواز دے، ویسے تو بعض عارفین نے یہاں تک کہا ہے کہ وہ گناہ ومعصیت جو بندے میں ندامت وشرمندگی اور ذلت وخواری کا باعث ہو اس طاعت وعبادت سے بہتر ہے جو خود بینی خود نمائی اور تکبر و غرور میں مبتلا کر دے۔
روایت کے آخری جز یعنی حضرت ابوبردہ کے اس قول " تمہارے والد اللہ کی قسم، میرے والد سے بہتر تھے " کا مطلب یہ ہے کہ جب تمہارے والد اتنی عظیم القدر ہستی ہونے اور اتنے زیادہ اعمال وفضائل کے حامل ہونے کے باوجود خوف ودہشت کے اس مقام پر تھے تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ میرے والد سے کہیں زیادہ بہتر ہوئے اور ان کا مرتبہ کہیں زیادہ بلند ہوگا ، یا یہ مراد ہے کہ اس بات پر تعجب ہے کہ تمہارے والد باوجودیکہ میرے والد سے برتر و افضل تھے لیکن وہ آخرت کے معاملے میں اس قدر خوف زدہ تھے؟ لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ آخرت کا معاملہ بہت نازک ہے۔