چند احکام خداوندی
راوی:
عن عياض بن حمار المجاشعي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ذات يوم في خطبته ألا إن ربي أمرني أن أعلمكم ما جهلتم مما علمني يومي هذا كل مال نحلته عبدا حلال وإني خلقت عبادي حنفاء كلهم وإنه أتتهم الشياطين فاجتالتهم عن دينهم وحرمت عليهم ما أحللت لهم وأمرتهم أن يشركوا بي ما لم أنزل به سلطانا وإن الله نظر إلى أهل الأرض فمقتهم عربهم وعجمهم إلا بقايا من أهل الكتاب وقال إنما بعثتك لأبتليك وأبتلي بك وأنزلت عليك كتابا لا يغسله الماء تقرؤه نائما ويقظان وإن الله أمرني أن أحرق قريشا فقلت يا رب إذا يثلغوا رأسي فيدعوه خبزة قال استخرجهم كما أخرجوك وأغزهم نغزك وأنفق فسننفق عليك وابعث جيشا نبعث خمسة مثله وقاتل بمن أطاعك من عصاك . رواه مسلم . ( متفق عليه )
حضرت عیاض بن حمار مجاشعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے جمعہ وغیرہ کے خطبہ میں (یا کسی وعظ کے دوران فرمایا) لوگو !سنو! میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں وہ باتیں بتا دوں جو تم نہیں جانتے ۔ (اس کے بعد آپ نے ان باتوں کے سلسلے میں اس طرح بیان فرمانا شروع کیا کہ) اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ جو مال میں نے اپنے کسی بندہ کو دیا ہے وہ حلال ہے یعنی کسی شخص کو جو مال واسباب جائز ذرائع سے حاصل ہوا ہے ۔ وہ اس کے حق میں حلال ہے، کوئی اس کو اپنی طرف سے حرام قرار نہیں دے سکتا جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں قاعدہ تھا کہ لوگ بعض صورتوں میں اونٹوں کو خواہ مخواہ اپنے اوپر حرام کر لیتے تھے، اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ میں نے تو اپنے سب بندوں کو باطل کے خلاف ، حق کی طرف مائل پیدا کیا۔ لیکن یہ شیاطین تھے، جو ان بندوں کے پاس آئے اور ان کو ان کے دین سے پھیر کر گمراہی میں ڈال دیا اور ان پر وہ چیزیں حرام کر دیں جن کو میں نے ان کے لئے حلال کیا تھا (یعنی شیاطین نے ان لوگوں کو اس طرح گمراہ کر دیا کہ انہوں نے اپنے اوپر حلال چیزوں کو حرام کر لیا، اور ان ہی شیاطین نے ان کو حکم دیا (یعنی ان کے دل میں یہ گمراہ کن وسوسہ ڈالا) کہ وہ اس چیز کو میرے ساتھ شریک کریں جس کے غالب ہونے کی کوئی دلیل نازل نہیں ہوئی (یعنی جو لوگ بتوں کو پوجتے ہیں اور اس طرح عبادت میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں ان کے پاس ان کے اس فعل کی کوئی معقول دلیل اور استحقاق نہیں ہے، یہ صرف شیاطین کے گمراہ کرنے کا اثر ہے کہ وہ ایسے ناروا کام میں مبتلا ہیں، اور یہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین والوں پر نظر ڈالی اور ان کو کفر شرک پر متفق اور ضلالت وگمراہی میں مستغرق پایا چنانچہ اللہ نے ان سب کو اپنا مبغوض وناپسندیدہ قرار دے دیا خواہ وہ عرب کے ہوں یا عجم کے (یعنی جب دنیا کے سارے لوگ کفر شرک میں مبتلا ہو گئے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت تک سب کے سب گمراہی پر متفق ومجتمع تھے کہ موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے تو عیسی علیہ السلام کو ماننے سے انکار کیا اور عزیر علیہ السلام کی پوجا کرنے لگے، عیسی علیہ السلام کی قوم تین خداؤں کی قائل اور اس مشرکانہ عقیدہ کی حامل ہو گئی کہ عیسی علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں وغیرہ وغیرہ تو اللہ تعالیٰ نے ان سب کو اپنا مبغوض ترین بندہ قرار دیدیا) علاوہ اہل کتاب کی اس جماعت کے جو مشرک نہیں ہوئی بلکہ موسی وعیسی پر ایمان رکھتے ہوئے اصل دین پر قائم وثابت قدم رہی، اس جماعت کے لوگوں نے نہ تو اپنی آسمانی کتابوں میں تحریف کی اور نہ اپنے دین کے احکام میں اپنی مرضی کے مطابق کوئی تبدیلی کی یہاں تک کہ جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا میں مبعوث ہوئے تو ان پر ایمان لائے اور حلقہ بگوش اسلام ہو گئے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو مبغوض قرار نہیں دیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے آپ کو (اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پیغمبر بنا کر دنیا میں اس لئے بھیجا ہے تاکہ میں آپ کو آزماؤں کہ آپ اپنی قوم کی ایذاء رسانی پر کس طرح صبر کرتے ہیں اور آپ کے ساتھ آپ کی قوم کو بھی آزماؤں کہ آیا وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لاتے ہیں یا آپ کے ساتھ کفر اختیار کرتے ہیں اور میں نے آپ پر ایک ایسی کتاب نازل کی جس کو پانی دھو اور مٹا نہیں سکتا (یعنی عام طور سے کاغذ پر لکھی ہوئی کتاب کو پانی سے دھویا جائے تو مٹ جاتی ہے لیکن وہ کتاب جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئی یعنی قرآن کریم ایسی کتاب نہیں ہے کہ اس کو کوئی پانی دھو اور مٹا دے بلکہ وہ ہر قسم کی تحریف اور تغیر وتبدل سے محفوظ ہے بایں طور کہ اس کو قیامت تک کے لئے دلوں میں محفوظ کر دیا گیا ہے اور اس کے احکام کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے باقی وجاری رکھا گیا ہے آپ اس کتاب کو سوتے جاگتے ہر وقت پڑھتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے مجھ کو یہ حکم دیا ہے کہ میں قریش کو جلا دوں (یعنی اہل قریش میں سے جو لوگ ایمان نہیں لاتے ہیں اور کفر کی حالت پر قائم ہیں ان کو اس طرح تباہ وہلاک کر دوں کہ ان کا نام ونشان تک باقی نہ رہے) میں نے عرض کیا کہ میرے پروردگار قریش تو میرا سر کچل کر روٹی کی مانند چوڑا کر دیں گے (یعنی اہل اسلام کے مقابلہ پر ان کی طاقت اور تعداد بہت زیادہ ہے ، میں ان سے کس طرح نمٹ سکوں گا اور کیسے ان پر غلبہ پاؤں گا) اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ تم ان کو ان کے وطن سے نکال دو جس طرح کہ انہوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وطن بدر کیا تھا اور ان کے ساتھ جہاد کرو، ہم آپ کے جہاد کے سامان کا انتظام کریں گے یعنی آپ اور آپ کے رفقاء کو ایسی غیبی طاق اور ہمت عطا کریں گے کہ اہل اسلام کی مٹھی بھر جماعت بھی ان کے لشکر جرار پر غالب آ جائے گی) آپ اپنے لشکر والوں پر مال واسباب خرچ کیجئے۔ اگر آپ کے پاس مال واسباب نہیں ہوگا تو ہم دیں گے اور اس کا انتظام کریں گے، آپ ان کے خلاف اپنا لشکر بھیجئے ہم دشمن کے لشکر سے پانچ گنا زیادہ طاقت کے ساتھ آپ کی مدد کریں گے چنانچہ جب بدر کی جنگ ہوئی اور مسلمان صرف تین سو کی تعداد میں کفر کے ایک ہزار کے لشکر کے ساتھ معرکہ آرا ہوئے تو روایات میں آتا ہے کہ پانچ ہزار فرشتوں کا لشکر مسلمانوں کی مدد کے لئے آیا۔ اور جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے اور آپ کے اطاعت گزار ہیں ان کو ساتھ لے کر ان کے خلاف جنگ کیجئے جنہوں نے آپ کی نافرمانی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سرکشی کی ہے اور کافر ہیں۔ (مسلم)
تشریح
" حق کی طرف مائل پیدا کیا " کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سب لوگوں کو ایسی استعداد وصلاحیت کے ساتھ پیدا کیا جو قبول حق وقبول طاعت کی راہ میں ان کی مددگار ہوتی۔ اس ارشاد میں گویا اس فطرت اسلام کی طرف اشارہ ہے جس کے بارے میں فرمایا گیا ہے حدیث(کل مولود یولد علی فطرۃ الاسلام) (یعنی ہر بچہ قبول اسلام کی استعداد وصلاحیت کے ساتھ پیدا کیا جاتا ہے) لہٰذا اس جملہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ لوگ واقعۃ بالفعل مومن ومسلمان پیدا ہوئے تھے لیکن بعد میں شیطان کی گمراہی کی وجہ سے کافر ہو گئے ۔ یا اس جملہ کے ذریعہ اس عہد کی طرف اشارہ ہے کہ جو میثاق کے دن تمام روحوں سے اللہ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت کا لیا تھا اور سب نے یہ اقرار کیا تھا کہ بے شک ہم سب آپ کو اپنا رب مانتے ہیں عہد واقرار میں ان لوگوں کی روحیں بھی شامل تھیں جو اس دنیا میں آنے کے بعد اور شیطان کے گمراہ کر دینے کی وجہ سے اپنے اس عہد واقرار سے مکر گئے اور مومن ومسلمان رہنے کی بجائے کفر و شرک اختیار کر لیا۔
" سوتے جاگتے پڑھتے ہیں" کا مطلب کہ ایسا ملکہ اور عبور حاصل ہو گیا ہے کہ قرآن ہر وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذہن میں مستحضر رہتا ہے اور اکثر حالات میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقدس وپاک نفس اسی کی طرف متوجہ وملتفت رہتا ہے، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ تو اس سے جاگنے کی حالت میں غافل رہتے ہیں اور نہ سونے کی حالت میں، یہ ایک عام محاورہ بھی ہے کہ جب کوئی شخص کسی خاص کام میں مہارت وملکہ رکھتا ہے اور زیادہ اسی میں منہمک ومستغرق رہتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ وہ سوتے جاگتے یہی کام کرتا ہے۔ حاصل یہ کہ قرآن سوتے وقت آپ کے دل میں رہتا ہے ۔ لیکن ملا علی قاری کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب مبارک کی نسبت سے یہ تاویل قطعا غیر ضروری ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دل تو ہر وقت ہی بیدار رہتا تھا سونے کی حالت میں بھی صرف آنکھیں سوتی تھیں اور دل پر کوئی غفلت طاری نہیں ہوتی تھی۔ لہٰذا اس جملہ کا صاف مطلب یہ ہے کہ سوتے کی حالت بھی قرآن سے آپ کا تعلق منقطع نہیں ہوتا، فرق صرف اتنا ہے کہ جاگنے کی حالت میں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان اور دل دونوں پر قرآن شریف رہتا ہے اور سونے کی حالت میں صرف قلب مبارک پر جاری رہتا ہے۔ قرآن کا اعجاز تو یہاں تک ثابت ہے کہ جو پاک نفس لوگ کلام اللہ سے بہت زیادہ اور نہایت گہرا تعلق رکھتے ہیں ان کی زبان سوتے کی حالت میں بھی تلاوت کرتی ہے جیسا کہ بہت سے بزرگوں کے بارے میں منقول ہے کہ ان کو دیکھا گیا کہ وہ سو رہے ہیں لیکن زبان سے تلاوت جاری ہے اور اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز اور عجیب واقعہ وہ ہے جو بعض کتابوں میں منقول ہے کہ ایک شخص اپنے شیخ ومرشد کے ساتھ ہر روز سحر کے وقت قرآن کی دس آیتوں کا دور کیا کرتا تھا ۔ جب شیخ کی وفات ہو گئی تو وہ شخص اپنی عادت کے مطابق سحر کے وقت اٹھا اور شیخ کی قبر پر حاضر ہوا اور وہاں دس آیتوں کی تلاوت کی، تلاوت فارغ ہو کر خاموش ہی ہوا تھا کہ اچانک قبر کے اندر سے اپنے شیخ کی آواز سنی کہ اپنی زندگی کے معمول کے مطابق انہوں نے دس آیتوں کی تلاوت کی اور اس کے بعد خاموشی چھا گئی ۔ پھر تو اس شخص نے یہ معمول بنا لیا کہ روز سحر کے وقت قبر پر پہنچ جاتا دس آیتوں کی تلاوت کرتا اور قبر کے اندر سے اپنے شیخ کی آتی ہوئی آواز میں دس آیتوں کی تلاوت سنتا اور چلا آتا یہ سلسلہ کافی عرصہ تک جاری رہا، ایک دن اس نے یہ واقعہ اپنے کسی دوست سے بھی بیان کر دیا اس دن سے قبر کے اندر سے شیخ کی تلاوت کی آواز کا آنا بھی موقوف ہو گیا۔